اداریہ
نحمدہ و نصلی ونسلم علی رسولہ الکریم
اعوذباللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
لَایُحِبُّ اللّٰہُ الْجَھْرَ بِالسُّوآ ءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلاَّ مَنْ ظُلِم (پارہ۶)
اللہ پسند نہیں کرتا بری بات کااعلان کرنا مگر مظلوم سے (کنزالایمان)
قارئین کرام!اللہ کے پیارے حبیب ﷺکی حدیث ہے کہ
میری امت ۷۳ فرقوں میں بٹے گی تمام فرقے جہنم میں جائیں گے مگر ایک فرقہ
ناجی ہوگا۔پیارے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے پوچھا
یارسول اللہ وہ ناجی فرقہ کون ہوگا؟آقاﷺ نے فرمایا’’ما انا علیہ و
اصحابی‘‘۔جس راہ پر میں اور میرے صحابہ ہوں اسی ’’راہ سنت‘‘ پر چلنے والے
اور اسی ’’نور سنت‘‘ سے مستفیض ہونے والے ہی ناجی ہیں۔ دوستو! یہی ناجی
فرقہ ’’اہل السنۃ والجماعۃ‘‘ کہلایا ،جس نے ہر دور میں ان باطل فرقوں
کامقابلہ کیا جنہوں نے اپنی ریشہ دوانیوں سے اسلام کی بنیادوں کو کمزور
کرنے کی کوشش کی ۔
اللہ عز و جل کے رسول پاک ﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ
’’الجھاد ماض الی یوم القیامۃ‘‘
کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا معلوم ہوا کہ حق کے مقابلے میں باطل گروہ قیامت تک رہیں گے،اور ان کے خلاف حق والوں کا جہاد بھی قیامت تک جاری رہے گا ،وہ جہاد خواہ تلوار کے ذریعہ ہو ،خواہ قلم کے ذریعہ ، خواہ تقریرکے ذریعہ ہو یا خواہ مال کے ذریعہ۔جہاد صرف یہی نہیں کہ تلوار کے ذریعہ باطل کی گردن اڑادیجائے بلکہ تحریر و تقریر کے ذریعہ اس کا مقابلہ کرنابھی جہاد ہے کیونکہ خود پیارے آقا ﷺ کا ارشاد ہے کہ :
افضل الجہاد کلمۃ حق عند سلطان جائر
الحمد للہ ! اہلحق نے ہمیشہ باطل کے خلاف اس قلمی جہاد کو جاری رکھا وہ باطل خواہ رفض کی صورت میںآیا ہو، خواہ خارجیت کی صورت میںآیا ہو ،خواہ یزیدیت کی صورت میں آیا ہو،خواہ اعتزال و باطنیت کی صورت میں آیا ہو ،خواہ منکرین ختم نبوت و منکرین حدیث کی صورت میں آیا ہو،یا خواہ بدعات کو ایک مذہب کا جامہ پہنا کر ’’بریلویت‘‘ کی صورت میں آیا ہو ۔حقیقت یہ ہے کہ ’’بریلویت‘‘انگریز دور میں جنم لینے والا وہ منہوس فرقہ ہے جس نے اہلسنت کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ کی گمراہی میں ڈال دیا یہ وہ منہوس فرقہ ہے جس کے ہوتے ہوئے امت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ امت مسلمہ کے خلاف اس کے زہریلے مقاصد کو اسی وقت اہلسنت کی ذمہ دار شخصیات نے محسوس کرلیا تھا اور پھر ہر طرح سے اس باطل گروہ کا تعاقب کیا ۔حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ حج کو جارہے ہیں بریلوی محدث مولوی دیدار نے موقع غنیمت جانتے ہوئے مناظرے کا چیلنج دے دیا کہ کون اس وقت میں آئے گا اور ہمیں بھاگ گئے بھاگ گئے کے نعرے لگانے کا موقع مل جائے گا ،حضرت مولانا کے رفقاء کو جب معلوم ہوا تو کہا کہ اس وقت حج پر جارہے ہیں واپسی پر بات ہوگی مگر خلیل الملت حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ کو جب پتہ چلا تو کہلا بھیجا کہ ہم مناظرے کیلئے تیار ہیں مقام اور وقت کا تعین آپ کرلیں اوراپنے رفقاء سے فرمایا:
’’یہ بھی تو ایک دینی کام ہے حج اگلے سال بھی ہوسکتا ہے ‘‘
(ملخصا تذکرۃ الخلیل :ص ۱۵۱)
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کوئی نیا کام کررہے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اکابر کو پڑھا ہی نہیں ان کے دینی مزاج کو سمجھا ہی نہیں ،آخر فقیہ العصر مولانا رشید احمد گنگوہی ،مولانا خلیل احمد سہارنپوری ، مولانا اشرف علی تھانوی ،مولانا حسین احمد مدنی،مولانا مرتضی حسن چاند پوری،مولانا منظور نعمانی،اما م اہلسنت مولانا سرفراز خان صفدر صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہم اجمعین نے کیا ساری زندگی ان بدعتیوں کا تعاقب نہ کیا؟آپ ا ن کی کتب و سوانح پڑھیں کہ جب بھی اہل بدعت نے سر اٹھایا تو اس سر کو کچلنے کیلئے ہر اول دستے کے طور پر ان اکابر کا نام آپ کو تاریخ کے اوراق پر جگمگاتا نظر آئے گا۔ہم بھی اپنے اکابر کے اسی رستے پر چلتے ہوئے ان دین فروشوں کاقلع قمع کرنے نکلے ہیں ۔کچھ عرصہ سے لاہور کے ایک ٹریفک پولیس کی ’’ٹلا نوازی ‘‘ کرنے والے میثم عبا س رضوی (میثم اثم (گناہ) کے مادے سے اسم آلہ ہے ا س بدبخت کا نام ہی گناہوں کا آلہ ہے )اپنی بدعتی پارٹی کے ساتھ مل کر گالم گلوچ کی زبان میں ایک طوفان بدتمیزی اہل حق کے خلاف کھڑا کیا ہوا ہے ،الحمد للہ رضاخانی فرقے کے ذمہ دار لوگوں کو تو اہلحق کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی اور نہ ہوسکے گی خود عورتوں کی طرح گھروں میں چھپ کر عورتوں کے منہ والے ایک جاہل ٹریفک پولیس کو آگے کردیا کیونکہ انگریز سے ملا ہوا حکم لڑاؤ اور حکومت کرو پر بھی تو عمل کرنا ہے کہ اسی کے بل بوتے پر تو وہاں سے ڈالر آتے ہیں ۔قریبا ایک سال پہلے ان بد بختوں کا علمی محاسبہ کرتے ہوئے اہلحق کی طرف سے ’’سیف حق‘‘ نامی رسالہ شائع کیا گیا تھا جو الحمد للہ تاحال لا جواب ہے میثم رضاخانی اپنے جاہل حواریوں کو خوش کرنے کیلئے قریبا اپنے ہر رسالے میں یہ اعلان لگواتا رہا کہ سیف حق کا جواب جلد آرہا ہے اور آٹھویں شمارے میں یہ اعلان لگادیا کہ اگلا شمارہ خصوصی شمارہ ہوگا جو ۲۵۰ صفحات پر مشتمل ہوگا اور سیف حق کا جواب ہوگا میسیجز کے ذریعہ پورے پاکستا ن میں بھی اس کا خوب پروپگینڈا کیا گیا اور آخر طویل انتظار کے بعد نواں شمارہ بھی آگیا مگر سیف حق کا جواب نہ آنا تھا اور نہ آیا ۔’’سیف حق‘‘ نے نام نہاد ’’کلمہ حق‘‘ پر وہ کاری ضرب لگائی کہ میثم رضاخانی کو ایڈیٹر سے اپنا نام ہٹا کر وہاں ’’عبدالمصطفی ‘‘ لکھنا پڑا ،نائب ایڈیٹر میں یوسف رضوی قصائی کا نام ہٹا کر غلام صدیق لکھنا پڑا،جن لوگوں نے بڑے فخر سے مجلس تحقیق کے عنوان سے کلمہ حق میں اپنے نام لکھوائے ان سب ناموں کو غائب کردیا گیا،لاہور کا ایڈریس ہٹا کر کراچی کا ایڈریس لکھنا پڑا اور بیچارے کو رسالے میں مضمون لکھنے کیلئے مضمون نگاروں کے لالے پڑگئے ،چنانچہ شمارہ ۷ میں ۱۳ مضامین تھے جن میں سے ۷ مضامین ادھر ادھر کے رسالوں اور کتابوں سے لیکررسالے کی بھرتی کی گئی ،باقی تین مضامین خود میثم کے اور ایک مضمون ابو الحقائق رضاخانی کا غیر مقلدین کے خلاف قسط وار ہے جس کے متعلق قرین قیاس یہی ہے کہ وہ خاص کلمہ حق کیلئے نہیں لکھاجارہا ہے ،بلکہ پہلے سے لکھا ہوا ہے ،شمارہ ۸ میں ۹ مضامین ہیں جن میں ۳ پھر رسالو ں سے لیکر بھرتی کی گئی دو میثم کے اور ایک وسیم رضاخانی کا(جس کا جواب اس رسالے میں شامل ہے )اور ایک غیر مقلدین کے خلاف ’’خر‘‘ صاحب کا اور ایک وہی ابو الحقائق کا،شمارہ ۵ میں تبصرہ درس وغیرہما کو چھوڑ کر ۱۳ مضامین ہیں جن میں سے چار پھر دوسرے رسائل و کتب سے باقی کے ۵ مضامین خو دمیثم رضاخانی کے ،ایک غلام مرتضی کا وہی قسط وار اور ایک شہزاداحمد کا ،شمارہ ۶میں ۸مضامین جن میں سے چار پھر ادھر ادھر کی کتابوں و رسائل سے لیکر رسالے کے صفحات کالے کئے گئے ،دو مضامین میثم کے اور ایک اسی ابو الحقائق کاقسط وار۔ حنیف قریشی رضاخانی تو اپنے مضمون کا منہ توڑ جواب ملنے کے بعد ایسا غائب ہوا جیسے میثم کے سر سے سینگھ کم سے کم اس بھگوڑے کے بھگوڑے شاگرد منیر حیدری کو ہی میدان میں آکر اپنے اس بھگوڑے استاد کا دفاع کرنا چاہئے تھا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ دلائل سے بات کرنا یہ رضاخانیوں کے بس کا روگ ہی نہیں کہ یہ مردوں کا کام ہے اور احمد رضاخان لکھتا ہے کہ :
’’وہ مرد نہیں جو تمام دنیا کو مثل ہتھیلی کے نہ دیکھے‘‘۔ (ملفوظات :حصہ اول :ص ۳۱)
اب ہم سوال کرتے ہیں نام نہاد کلمہ حق کی مجلس تحقیق میں شامل دجال قریشی،انوار رضاخانی ،غلام مرتضی رضاخانی دجال،کاشف اقبال رضاخانی،دجال ظہوررضاخانی،عمر فاروق رضاخانی،دجال تبسم رضاخانی ،اور عرفان بٹ رضاخانی سے کہ وہ ’’کلما طلاق‘‘ کی قسم کھاکر کہیں کہ انہیں تمام دنیا مثل ہتھیلی کے نظر آتی ہے اگر نہیں او ر یقیناًنہیں تو اپنے دجال اعظم کے فتوے کی رو سے وہ ’’مرد ‘‘ نہیں اس لئے کلمہ حق میں علمائے حق کے خلاف بھونکنے اور بکواس کرنے کے بجائے لاہور کی سڑکوں پر ڈھول کی تھاپ پر ٹھمکے لگاکر اپنا آبائی پیشہ اپنائیں ۔میثم باجی کا نام اس لئے نہیں لیا کہ وہ پہلے ہی چہرے سے ان سب کی ’’گرو جی‘‘ لگتی ہیں۔الحمد للہ یہ سب ’’سیف حق‘‘ کی مار ہے مگر آپ نے وہ مثال تو سنی ہوگی کہ ’’لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے‘‘ دلیل کا جواب دلیل سے دینا تو ان بد بختوں کے بس کا روگ نہیں ا ن کے بڑوں نے ان کو یہی سکھایا ہے کہ جب اہلحق کا مقابلہ ہو تو جان چھڑانے کا آسان طریقہ یہی ہے کہ ہر بات کے جواب میں کم سے کم درجن بھر گالیاں دے دینا اب وہ بیچارہ تمہیں گالیوں کا کیا جواب دے گا اور خاموش ہوجائے گا اور یوں تمہیں جیت گئے لاجواب کردیا کہ نعرے لگانے کا موقع مل جائے گا اس لئے ہم نے بھی فیصلہ کیا کہ اب رضاخانیوں سے انہی کے اصول اور زبان میں بات کیجائے ۔اور اسی کی عملی صورت قصر رضاخانیت میں قہر برپا کردینے والا یہ قسط وار رسالہ ’’قہر حق‘‘ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
آخر میں ہم گزارش کریں گے کہ شائد یہ رسالہ پڑھنے والے کچھ قارئین کو اس بات کا احساس ہو کہ ہم نے رسالے میں رضاخانی دجالوں کیلئے سخت زبان استعمال کی ہے مگر وہ کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے سے پہلے ذرا ایک نظر رضاخانی رسالے میں استعمال ہونے والی زبان پر بھی کرلیں کہ ہمیں کیوں بریلویوں سے اس زبان میں بات کرنا پڑی بطور مثال صرف چند گالیاں ملاحظہ ہوں:
’’کذاب زمانہ امام المحرفین ڈاکٹر خالد محمود دیوبندی۔۔جس نے اعلی حضرت عظیم البرکت کے متعلق اپنی خباثت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ،مولوی حماد کی خباثت ہے،بند فہم اور بدعقل دیوبندی ہیں،دیوبندی دجال مولوی حماد،(۳ بار یہ لفظ اس صفحہ پر لکھا)،مولوی حماد دیوبندی دجال،یہ مولوی حماد کا وہ سیاہ جھوٹ ہے اس پر جتنی بھی لعنت کی جائے کم ہے ،دیوبندی کذاب،اپنے گرو دجال اعظم مولوی حسین احمد مدنی ،دیوبندی اکابر نے اپنی ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ،دیوبندی دجال کو،حسین احمد مدنی دجال اعظم کا،مولوی حماد دیوبندی دجال،مولوی حماد نے یہاں صریح جھوٹ بول کر اپنے اعمال کو مزید سیاہ کیا ،اپنے گرو دجال اعظم حسین احمد مدنی،دیوبندیوں کے ذہن میں چونکہ گند بھرا ہوا ہوتا ہے،دیوبندی کذاب، دیوبندی دجال،دیوبندی کذاب،دیوبندی دجال کذاب کا دوسرا اعتراض، دیوبندی دجال کے مبلغ علم ،دیوبندی دجال،دیوبندی دجال جل جائے،دیوبندی دجال نے اعتراض کیا تھا، لعنت ایسے گندے دیوبندی مذہب پر،دیوبندی دجال نے،وہ بھی تمہاری طرح جہنمی کتا ہے ،فیاض طارق دجال نے ،
(کلمہ حق شمارہ ۳۔ص۲۵، ۲۷،۲۸،۲۹ ،۳۱،۳۳ ،۳۴،۳۵ ،۳۸،۳۹ ،۴۲،۴۳،۳ ۵ ،۵۴ ،۵۵ ، ۵۶ ، ۵۷ ، ۶۱ ،۶۱)
دیوبندی مفتی مذکور نے اپنے خبث باطن کو ،دیوبندی مفتی ایک نہایت اعلی درجہ کا جاہل اور کذاب ہے،دیوبندی خائن مفتی،بد باطن دیوبندی،دیوبندی جعلی مفتی جی،دیوبندی خائن مفتی نے،(کلمہ حق شمارہ نمبر ۶؛ص۸۰ ،۸۱،۸۲،۸۴)
کلمہ حق شمارہ ۴:ص ۴۰ پر دیوبندیوں کو :بدبخت،ملعون،کہا۔اسی طرح ص ۸۶ پر ہے دیوبندیت کی کذ بیانیوں اور ان کے منبع جہالت ہونے کا۔دیوبندیہ کافر مرتد بے ایمان ہیں،مولوی اشرف علی کے چہرے کی کیا تخصیص ہے۔ایسا چہرہ تو سور کا بھی ہے ، مولوی رشید احمد گنگوہی کے کان کی کیا تخصیص ایسا کان تو گدھے کا بھی ہے ،مولوی ابو الوفاء کے دانت کی کیا تخصیص ہے ،ایسا دانت تو کتے کا بھی ہے،الیاس کاندھلوی ایجنٹ برطانیہ ،الیاس وظیفہ خوار برٹش کا،(کلمہ حق شمارہ ۷:ص ۲۵،۲۷،۳۷،۳۸)مولوی الیاس گھمن دیوبندی دجال،گھمن کذاب،مولوی الیاس گھمن دیوبندی کذاب، دیوبندی کذاب گھمن جی، الیاس گھمن کی خباثت،اس خبیث نے اپنی خباثت،یہ مولوی الیاس کی خباثت قلبی ہے، مولوی الیاس گھمن دیوبندی خبیث نے ،مولوی الیاس گھمن ایک نہایت اعلی درجہ کا کذاب اور خبیث شخص ہے ،مولوی منظور سنبھلی دیوبندی کی جہالتیں (کلمہ حق شمارہ نمبر ۸:ص۳۱،۳۴،۳۸ ،۴۱،۴۳،۴۶، ۵۵،۴۲)
میثم دجال کی اولاد نے محترم ساجد خان نقشبندی صاحب کو اپنے نمبر 03134269574 سے مورخہ 23,24-3-2012کو جو گالیاں دیں اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو:
(اگر بے غیرتوں کے سر پر سینگ ہوتے تو دیوبندیوں کے سروں پر بارہ سینگے سے بھی بڑے سینگ ہوتے)ٰ،(تومیرا بیٹا ہے اوکے (محترم ساجد بھائی کو کہا جارہا ہے )جا اپنی ماں سے پوچھو وہ تجھے بتادیگی کہ تو ایک تھانیدار کی اولاد ہے اس لئے میں تمہیں کہتا ہوں کہ تو میرا بنا نکاح والا بیٹا ہے تجھے تکلیف ہوتی ہے لیکن جا اپنا dnaٹیسٹ کرواتو میرا ہی نطفہ ہے لیکن تو آج کل اپنے باپ کے خلاف ہوگیا ہے) ،(وہ رنڈیاں تمہاری مائیں تھیں)،(بیٹا ساجد تمہاری دیوبندیوں کی میں نے ایسی گانڈ پھاڑ دی ہے کہ وہ قیامت تک نہیں سل سکتی) ،(براۃ الابرار والے اعتراض نے تمہاری زبان اور گانڈ بند کردی ہے )
ہم کلمہ حق میں لکھنے والے حنیف قریشی ،غلام مرتضی، کاشف اقبال اور دیگرخبیث رضاخانیوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیا تمہیں اپنے مسلک کے دفاع کیلئے ایسے ہی گندے انڈے دستیاب ہوسکے ہیں؟ جن کی بے غیرتی کا یہ حال ہے کہ وہ فخریہ طور پر اپنا ’’زانی‘‘ ہونا تسلیم کررہے ہیں کیا تم میں سے کسی کو غیرت نہیں آتی کہ ایک زانی اور سنڈاسے سے زیادہ گندی زبان اور ذہنیت والے شخص کی انگلی پکڑ کر اپنے مسلک کا دفاع کرنے چلے ہو ؟
اس سب کے باوجود ہم نے صبر سے کام لیا مگر اب ہمارے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوچکا ہے میثم دجال کی اولاد اور اس کے رسالے میں لکھنے والے دیگر دجال اور خبیث بریلوی اور دجال اعظم احمد رضاخان کی اولادکان کھول کر سن لیں کہ اگر وہ دلائل کی زبان میں گفتگو نہیں کرسکتے اور دوسروں کو ماں بہن کی گالیاں دینا ہی اب حقانیت کی دلیل بن چکا ہے تو وہ رسالے لکھنے کے بجائے لاہور کی منڈی کا رخ کریں اور وہاں اپنا آبائی پیشہ جوان کے گرو گھنٹال دجال اعظم احمد رضاخان اور دجال نقی علی کا تھا اس کو اپنائیں۔ہم نے اس بار بھی حتی المقدور کوشش کی کہ ہاتھ ہلکا رکھا جائے کیونکہ رضاخانیوں والی زبان میں بات کرنے کیلئے تو ہمیں بریلی میں ان رنڈیوں کے زیر تربیت رہنا ہوگاجن کو بچپن میں احمد رضاخان اپنا ’’آلہ شریف‘‘ دکھا کر جنسانیت پر لیکچر دیتا تھا۔بہرحال ہم نے اگر اس رسالے میں کہیں سخت زبان استعمال کی ہے تو وہ انتہائی مجبوری کی حالت میں صرف جواب آں غزل کے طور پر اگر رضاخانیوں کو اب بھی عقل نہ آئی تو اگلی بار ان کا وہ حشر کیا جائے گا کہ یہ ساری زندگی یاد رکھیں گے۔
اللہ عز و جل کے رسول پاک ﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ
’’الجھاد ماض الی یوم القیامۃ‘‘
کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا معلوم ہوا کہ حق کے مقابلے میں باطل گروہ قیامت تک رہیں گے،اور ان کے خلاف حق والوں کا جہاد بھی قیامت تک جاری رہے گا ،وہ جہاد خواہ تلوار کے ذریعہ ہو ،خواہ قلم کے ذریعہ ، خواہ تقریرکے ذریعہ ہو یا خواہ مال کے ذریعہ۔جہاد صرف یہی نہیں کہ تلوار کے ذریعہ باطل کی گردن اڑادیجائے بلکہ تحریر و تقریر کے ذریعہ اس کا مقابلہ کرنابھی جہاد ہے کیونکہ خود پیارے آقا ﷺ کا ارشاد ہے کہ :
افضل الجہاد کلمۃ حق عند سلطان جائر
الحمد للہ ! اہلحق نے ہمیشہ باطل کے خلاف اس قلمی جہاد کو جاری رکھا وہ باطل خواہ رفض کی صورت میںآیا ہو، خواہ خارجیت کی صورت میںآیا ہو ،خواہ یزیدیت کی صورت میں آیا ہو،خواہ اعتزال و باطنیت کی صورت میں آیا ہو ،خواہ منکرین ختم نبوت و منکرین حدیث کی صورت میں آیا ہو،یا خواہ بدعات کو ایک مذہب کا جامہ پہنا کر ’’بریلویت‘‘ کی صورت میں آیا ہو ۔حقیقت یہ ہے کہ ’’بریلویت‘‘انگریز دور میں جنم لینے والا وہ منہوس فرقہ ہے جس نے اہلسنت کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ کی گمراہی میں ڈال دیا یہ وہ منہوس فرقہ ہے جس کے ہوتے ہوئے امت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ امت مسلمہ کے خلاف اس کے زہریلے مقاصد کو اسی وقت اہلسنت کی ذمہ دار شخصیات نے محسوس کرلیا تھا اور پھر ہر طرح سے اس باطل گروہ کا تعاقب کیا ۔حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ حج کو جارہے ہیں بریلوی محدث مولوی دیدار نے موقع غنیمت جانتے ہوئے مناظرے کا چیلنج دے دیا کہ کون اس وقت میں آئے گا اور ہمیں بھاگ گئے بھاگ گئے کے نعرے لگانے کا موقع مل جائے گا ،حضرت مولانا کے رفقاء کو جب معلوم ہوا تو کہا کہ اس وقت حج پر جارہے ہیں واپسی پر بات ہوگی مگر خلیل الملت حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ کو جب پتہ چلا تو کہلا بھیجا کہ ہم مناظرے کیلئے تیار ہیں مقام اور وقت کا تعین آپ کرلیں اوراپنے رفقاء سے فرمایا:
’’یہ بھی تو ایک دینی کام ہے حج اگلے سال بھی ہوسکتا ہے ‘‘
(ملخصا تذکرۃ الخلیل :ص ۱۵۱)
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کوئی نیا کام کررہے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اکابر کو پڑھا ہی نہیں ان کے دینی مزاج کو سمجھا ہی نہیں ،آخر فقیہ العصر مولانا رشید احمد گنگوہی ،مولانا خلیل احمد سہارنپوری ، مولانا اشرف علی تھانوی ،مولانا حسین احمد مدنی،مولانا مرتضی حسن چاند پوری،مولانا منظور نعمانی،اما م اہلسنت مولانا سرفراز خان صفدر صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہم اجمعین نے کیا ساری زندگی ان بدعتیوں کا تعاقب نہ کیا؟آپ ا ن کی کتب و سوانح پڑھیں کہ جب بھی اہل بدعت نے سر اٹھایا تو اس سر کو کچلنے کیلئے ہر اول دستے کے طور پر ان اکابر کا نام آپ کو تاریخ کے اوراق پر جگمگاتا نظر آئے گا۔ہم بھی اپنے اکابر کے اسی رستے پر چلتے ہوئے ان دین فروشوں کاقلع قمع کرنے نکلے ہیں ۔کچھ عرصہ سے لاہور کے ایک ٹریفک پولیس کی ’’ٹلا نوازی ‘‘ کرنے والے میثم عبا س رضوی (میثم اثم (گناہ) کے مادے سے اسم آلہ ہے ا س بدبخت کا نام ہی گناہوں کا آلہ ہے )اپنی بدعتی پارٹی کے ساتھ مل کر گالم گلوچ کی زبان میں ایک طوفان بدتمیزی اہل حق کے خلاف کھڑا کیا ہوا ہے ،الحمد للہ رضاخانی فرقے کے ذمہ دار لوگوں کو تو اہلحق کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی اور نہ ہوسکے گی خود عورتوں کی طرح گھروں میں چھپ کر عورتوں کے منہ والے ایک جاہل ٹریفک پولیس کو آگے کردیا کیونکہ انگریز سے ملا ہوا حکم لڑاؤ اور حکومت کرو پر بھی تو عمل کرنا ہے کہ اسی کے بل بوتے پر تو وہاں سے ڈالر آتے ہیں ۔قریبا ایک سال پہلے ان بد بختوں کا علمی محاسبہ کرتے ہوئے اہلحق کی طرف سے ’’سیف حق‘‘ نامی رسالہ شائع کیا گیا تھا جو الحمد للہ تاحال لا جواب ہے میثم رضاخانی اپنے جاہل حواریوں کو خوش کرنے کیلئے قریبا اپنے ہر رسالے میں یہ اعلان لگواتا رہا کہ سیف حق کا جواب جلد آرہا ہے اور آٹھویں شمارے میں یہ اعلان لگادیا کہ اگلا شمارہ خصوصی شمارہ ہوگا جو ۲۵۰ صفحات پر مشتمل ہوگا اور سیف حق کا جواب ہوگا میسیجز کے ذریعہ پورے پاکستا ن میں بھی اس کا خوب پروپگینڈا کیا گیا اور آخر طویل انتظار کے بعد نواں شمارہ بھی آگیا مگر سیف حق کا جواب نہ آنا تھا اور نہ آیا ۔’’سیف حق‘‘ نے نام نہاد ’’کلمہ حق‘‘ پر وہ کاری ضرب لگائی کہ میثم رضاخانی کو ایڈیٹر سے اپنا نام ہٹا کر وہاں ’’عبدالمصطفی ‘‘ لکھنا پڑا ،نائب ایڈیٹر میں یوسف رضوی قصائی کا نام ہٹا کر غلام صدیق لکھنا پڑا،جن لوگوں نے بڑے فخر سے مجلس تحقیق کے عنوان سے کلمہ حق میں اپنے نام لکھوائے ان سب ناموں کو غائب کردیا گیا،لاہور کا ایڈریس ہٹا کر کراچی کا ایڈریس لکھنا پڑا اور بیچارے کو رسالے میں مضمون لکھنے کیلئے مضمون نگاروں کے لالے پڑگئے ،چنانچہ شمارہ ۷ میں ۱۳ مضامین تھے جن میں سے ۷ مضامین ادھر ادھر کے رسالوں اور کتابوں سے لیکررسالے کی بھرتی کی گئی ،باقی تین مضامین خود میثم کے اور ایک مضمون ابو الحقائق رضاخانی کا غیر مقلدین کے خلاف قسط وار ہے جس کے متعلق قرین قیاس یہی ہے کہ وہ خاص کلمہ حق کیلئے نہیں لکھاجارہا ہے ،بلکہ پہلے سے لکھا ہوا ہے ،شمارہ ۸ میں ۹ مضامین ہیں جن میں ۳ پھر رسالو ں سے لیکر بھرتی کی گئی دو میثم کے اور ایک وسیم رضاخانی کا(جس کا جواب اس رسالے میں شامل ہے )اور ایک غیر مقلدین کے خلاف ’’خر‘‘ صاحب کا اور ایک وہی ابو الحقائق کا،شمارہ ۵ میں تبصرہ درس وغیرہما کو چھوڑ کر ۱۳ مضامین ہیں جن میں سے چار پھر دوسرے رسائل و کتب سے باقی کے ۵ مضامین خو دمیثم رضاخانی کے ،ایک غلام مرتضی کا وہی قسط وار اور ایک شہزاداحمد کا ،شمارہ ۶میں ۸مضامین جن میں سے چار پھر ادھر ادھر کی کتابوں و رسائل سے لیکر رسالے کے صفحات کالے کئے گئے ،دو مضامین میثم کے اور ایک اسی ابو الحقائق کاقسط وار۔ حنیف قریشی رضاخانی تو اپنے مضمون کا منہ توڑ جواب ملنے کے بعد ایسا غائب ہوا جیسے میثم کے سر سے سینگھ کم سے کم اس بھگوڑے کے بھگوڑے شاگرد منیر حیدری کو ہی میدان میں آکر اپنے اس بھگوڑے استاد کا دفاع کرنا چاہئے تھا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ دلائل سے بات کرنا یہ رضاخانیوں کے بس کا روگ ہی نہیں کہ یہ مردوں کا کام ہے اور احمد رضاخان لکھتا ہے کہ :
’’وہ مرد نہیں جو تمام دنیا کو مثل ہتھیلی کے نہ دیکھے‘‘۔ (ملفوظات :حصہ اول :ص ۳۱)
اب ہم سوال کرتے ہیں نام نہاد کلمہ حق کی مجلس تحقیق میں شامل دجال قریشی،انوار رضاخانی ،غلام مرتضی رضاخانی دجال،کاشف اقبال رضاخانی،دجال ظہوررضاخانی،عمر فاروق رضاخانی،دجال تبسم رضاخانی ،اور عرفان بٹ رضاخانی سے کہ وہ ’’کلما طلاق‘‘ کی قسم کھاکر کہیں کہ انہیں تمام دنیا مثل ہتھیلی کے نظر آتی ہے اگر نہیں او ر یقیناًنہیں تو اپنے دجال اعظم کے فتوے کی رو سے وہ ’’مرد ‘‘ نہیں اس لئے کلمہ حق میں علمائے حق کے خلاف بھونکنے اور بکواس کرنے کے بجائے لاہور کی سڑکوں پر ڈھول کی تھاپ پر ٹھمکے لگاکر اپنا آبائی پیشہ اپنائیں ۔میثم باجی کا نام اس لئے نہیں لیا کہ وہ پہلے ہی چہرے سے ان سب کی ’’گرو جی‘‘ لگتی ہیں۔الحمد للہ یہ سب ’’سیف حق‘‘ کی مار ہے مگر آپ نے وہ مثال تو سنی ہوگی کہ ’’لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے‘‘ دلیل کا جواب دلیل سے دینا تو ان بد بختوں کے بس کا روگ نہیں ا ن کے بڑوں نے ان کو یہی سکھایا ہے کہ جب اہلحق کا مقابلہ ہو تو جان چھڑانے کا آسان طریقہ یہی ہے کہ ہر بات کے جواب میں کم سے کم درجن بھر گالیاں دے دینا اب وہ بیچارہ تمہیں گالیوں کا کیا جواب دے گا اور خاموش ہوجائے گا اور یوں تمہیں جیت گئے لاجواب کردیا کہ نعرے لگانے کا موقع مل جائے گا اس لئے ہم نے بھی فیصلہ کیا کہ اب رضاخانیوں سے انہی کے اصول اور زبان میں بات کیجائے ۔اور اسی کی عملی صورت قصر رضاخانیت میں قہر برپا کردینے والا یہ قسط وار رسالہ ’’قہر حق‘‘ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
آخر میں ہم گزارش کریں گے کہ شائد یہ رسالہ پڑھنے والے کچھ قارئین کو اس بات کا احساس ہو کہ ہم نے رسالے میں رضاخانی دجالوں کیلئے سخت زبان استعمال کی ہے مگر وہ کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے سے پہلے ذرا ایک نظر رضاخانی رسالے میں استعمال ہونے والی زبان پر بھی کرلیں کہ ہمیں کیوں بریلویوں سے اس زبان میں بات کرنا پڑی بطور مثال صرف چند گالیاں ملاحظہ ہوں:
’’کذاب زمانہ امام المحرفین ڈاکٹر خالد محمود دیوبندی۔۔جس نے اعلی حضرت عظیم البرکت کے متعلق اپنی خباثت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ،مولوی حماد کی خباثت ہے،بند فہم اور بدعقل دیوبندی ہیں،دیوبندی دجال مولوی حماد،(۳ بار یہ لفظ اس صفحہ پر لکھا)،مولوی حماد دیوبندی دجال،یہ مولوی حماد کا وہ سیاہ جھوٹ ہے اس پر جتنی بھی لعنت کی جائے کم ہے ،دیوبندی کذاب،اپنے گرو دجال اعظم مولوی حسین احمد مدنی ،دیوبندی اکابر نے اپنی ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ،دیوبندی دجال کو،حسین احمد مدنی دجال اعظم کا،مولوی حماد دیوبندی دجال،مولوی حماد نے یہاں صریح جھوٹ بول کر اپنے اعمال کو مزید سیاہ کیا ،اپنے گرو دجال اعظم حسین احمد مدنی،دیوبندیوں کے ذہن میں چونکہ گند بھرا ہوا ہوتا ہے،دیوبندی کذاب، دیوبندی دجال،دیوبندی کذاب،دیوبندی دجال کذاب کا دوسرا اعتراض، دیوبندی دجال کے مبلغ علم ،دیوبندی دجال،دیوبندی دجال جل جائے،دیوبندی دجال نے اعتراض کیا تھا، لعنت ایسے گندے دیوبندی مذہب پر،دیوبندی دجال نے،وہ بھی تمہاری طرح جہنمی کتا ہے ،فیاض طارق دجال نے ،
(کلمہ حق شمارہ ۳۔ص۲۵، ۲۷،۲۸،۲۹ ،۳۱،۳۳ ،۳۴،۳۵ ،۳۸،۳۹ ،۴۲،۴۳،۳ ۵ ،۵۴ ،۵۵ ، ۵۶ ، ۵۷ ، ۶۱ ،۶۱)
دیوبندی مفتی مذکور نے اپنے خبث باطن کو ،دیوبندی مفتی ایک نہایت اعلی درجہ کا جاہل اور کذاب ہے،دیوبندی خائن مفتی،بد باطن دیوبندی،دیوبندی جعلی مفتی جی،دیوبندی خائن مفتی نے،(کلمہ حق شمارہ نمبر ۶؛ص۸۰ ،۸۱،۸۲،۸۴)
کلمہ حق شمارہ ۴:ص ۴۰ پر دیوبندیوں کو :بدبخت،ملعون،کہا۔اسی طرح ص ۸۶ پر ہے دیوبندیت کی کذ بیانیوں اور ان کے منبع جہالت ہونے کا۔دیوبندیہ کافر مرتد بے ایمان ہیں،مولوی اشرف علی کے چہرے کی کیا تخصیص ہے۔ایسا چہرہ تو سور کا بھی ہے ، مولوی رشید احمد گنگوہی کے کان کی کیا تخصیص ایسا کان تو گدھے کا بھی ہے ،مولوی ابو الوفاء کے دانت کی کیا تخصیص ہے ،ایسا دانت تو کتے کا بھی ہے،الیاس کاندھلوی ایجنٹ برطانیہ ،الیاس وظیفہ خوار برٹش کا،(کلمہ حق شمارہ ۷:ص ۲۵،۲۷،۳۷،۳۸)مولوی الیاس گھمن دیوبندی دجال،گھمن کذاب،مولوی الیاس گھمن دیوبندی کذاب، دیوبندی کذاب گھمن جی، الیاس گھمن کی خباثت،اس خبیث نے اپنی خباثت،یہ مولوی الیاس کی خباثت قلبی ہے، مولوی الیاس گھمن دیوبندی خبیث نے ،مولوی الیاس گھمن ایک نہایت اعلی درجہ کا کذاب اور خبیث شخص ہے ،مولوی منظور سنبھلی دیوبندی کی جہالتیں (کلمہ حق شمارہ نمبر ۸:ص۳۱،۳۴،۳۸ ،۴۱،۴۳،۴۶، ۵۵،۴۲)
میثم دجال کی اولاد نے محترم ساجد خان نقشبندی صاحب کو اپنے نمبر 03134269574 سے مورخہ 23,24-3-2012کو جو گالیاں دیں اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو:
(اگر بے غیرتوں کے سر پر سینگ ہوتے تو دیوبندیوں کے سروں پر بارہ سینگے سے بھی بڑے سینگ ہوتے)ٰ،(تومیرا بیٹا ہے اوکے (محترم ساجد بھائی کو کہا جارہا ہے )جا اپنی ماں سے پوچھو وہ تجھے بتادیگی کہ تو ایک تھانیدار کی اولاد ہے اس لئے میں تمہیں کہتا ہوں کہ تو میرا بنا نکاح والا بیٹا ہے تجھے تکلیف ہوتی ہے لیکن جا اپنا dnaٹیسٹ کرواتو میرا ہی نطفہ ہے لیکن تو آج کل اپنے باپ کے خلاف ہوگیا ہے) ،(وہ رنڈیاں تمہاری مائیں تھیں)،(بیٹا ساجد تمہاری دیوبندیوں کی میں نے ایسی گانڈ پھاڑ دی ہے کہ وہ قیامت تک نہیں سل سکتی) ،(براۃ الابرار والے اعتراض نے تمہاری زبان اور گانڈ بند کردی ہے )
ہم کلمہ حق میں لکھنے والے حنیف قریشی ،غلام مرتضی، کاشف اقبال اور دیگرخبیث رضاخانیوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیا تمہیں اپنے مسلک کے دفاع کیلئے ایسے ہی گندے انڈے دستیاب ہوسکے ہیں؟ جن کی بے غیرتی کا یہ حال ہے کہ وہ فخریہ طور پر اپنا ’’زانی‘‘ ہونا تسلیم کررہے ہیں کیا تم میں سے کسی کو غیرت نہیں آتی کہ ایک زانی اور سنڈاسے سے زیادہ گندی زبان اور ذہنیت والے شخص کی انگلی پکڑ کر اپنے مسلک کا دفاع کرنے چلے ہو ؟
اس سب کے باوجود ہم نے صبر سے کام لیا مگر اب ہمارے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوچکا ہے میثم دجال کی اولاد اور اس کے رسالے میں لکھنے والے دیگر دجال اور خبیث بریلوی اور دجال اعظم احمد رضاخان کی اولادکان کھول کر سن لیں کہ اگر وہ دلائل کی زبان میں گفتگو نہیں کرسکتے اور دوسروں کو ماں بہن کی گالیاں دینا ہی اب حقانیت کی دلیل بن چکا ہے تو وہ رسالے لکھنے کے بجائے لاہور کی منڈی کا رخ کریں اور وہاں اپنا آبائی پیشہ جوان کے گرو گھنٹال دجال اعظم احمد رضاخان اور دجال نقی علی کا تھا اس کو اپنائیں۔ہم نے اس بار بھی حتی المقدور کوشش کی کہ ہاتھ ہلکا رکھا جائے کیونکہ رضاخانیوں والی زبان میں بات کرنے کیلئے تو ہمیں بریلی میں ان رنڈیوں کے زیر تربیت رہنا ہوگاجن کو بچپن میں احمد رضاخان اپنا ’’آلہ شریف‘‘ دکھا کر جنسانیت پر لیکچر دیتا تھا۔بہرحال ہم نے اگر اس رسالے میں کہیں سخت زبان استعمال کی ہے تو وہ انتہائی مجبوری کی حالت میں صرف جواب آں غزل کے طور پر اگر رضاخانیوں کو اب بھی عقل نہ آئی تو اگلی بار ان کا وہ حشر کیا جائے گا کہ یہ ساری زندگی یاد رکھیں گے۔
اہلحق کیلئے عظیم خوشخبریاہلحق حضرات کیلئے اور باطل فرقوں میں تبلیغ کے سلسلے میں ہم نے 10 ڈی وی ڈیزکاایک سیٹ تیارکیا گیا ہے جس میں شامل ہیں، فرقہ بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ مذہب کی قرآن اور صحابہ کے بارے میں کفریہ عبارات ویڈیو ثبوت کیساتھ، دعوت اسلامی، طاہرالقادری، توصیف الرحمان اورمیراج ربانی کا اصلی چہرا، مناظرہ کوہاٹ سمیت 16 فیصلہ کن مناظرے، طارق جمیل صاحب، بہشتی زیور، فضائل اعمال اورہمارے اکابرین کی عبارات پر کیے گئے اعتراضات کے جوابات ویڈیو ثبوت کیساتھ، مناظر اسلام مولانا ابو ایوب قادری صاحب کے رد بریلویت پر ویڈیو بیانا ت اور مقبول عام ویڈیو سلسلہ ’’دست و گریبان،کوکب نورانی کا آپریشن،ترجمہ کنزالایمان کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ، 16لوگوں کے انٹرویوزجنہوں نے فرقہ اہلحدیث چھوڑ کر اہلسنت و جماعت کے حق مسلک کو قبول کیا، مسئلہ رفع الیدین، تقلید اور بہت سے مسائل پر قرآن اور احادیث سے دلائل ویڈیو ثبوت کے ساتھ، انکے علاوہ 10 ہزار روپے کی کمپیوٹر میں پڑھی جانے والی کتابیں بالکل مفت، یہ 10 ڈی وی ڈیز کا سیٹ صرف 500 روپے میں حاصل کرنے کے لیے 03338430534 پر شام 7 بجے سے لے کر رات 10 بجے کے درمیان کال کریں۔
قہر یزدان بر میثم رضوی شیطانبرادران اہل السنۃ والجماعت ! اہل السنۃ والجماعۃ کے دلائل و براہین سے پریشان ہو کر میثم شیطان نے گالیوں کی زبان استعمال کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے یہ میثم کے شکست کھانے کی بین دلیل ہے اور یہ زبان اس شیطان نے اپنے پاپا ئے رضویت دجالِ اعظم احمد رضاخان کی کتابوں سے سیکھی ہے، جس کی زبان پر گالیوں کا ہونا نعیم الدین مراد آبادی کو بھی اقرار ہے ۔بالآخر یہ جا کر شکایت بھی کردیتے ہیں کہ آپ کی کتب میں لوگ کہتے ہیں گالیاں بھری ہیں اور فاضل بریلوی نے آگے سے قطعاً گالیوں کے نہ ہونے سے انکار نہیں کیا بلکہ دبے پاؤں اقرار کرلیا ہے دیکھئے ’’ جہان مفتی اعظم ‘‘۔
غلام مصطفی نقشبندی مجددی
ہم یہ سخت زبان اسی کے رسالے نام نہاد کلمہ حق جو دراصل کلمہ باطل ہے کو پڑھ کر ردعمل کے طور پر استعمال کررہے ۔بہر کیف شمار ہ نمبر ۷ میں عر ض ضروری کے عنوان سے دو صفحے کا لے کرکے اکابر اہل السنۃ کو کافر قرار دیا گیا ہے اور دلیل یہ دی ہے کہ انہوں نے شیخ عبدالحق محدث دھلویؒ کی عبارت نقل کردی ہے اور آگے تبصرہ نقل نہیں کیا۔
( کلمہ حق شمارہ ۷ ص ۶۰ ملخصاً)
حالانکہ میثم شیطان سے لے کر ان کے پاپا رضا خان تک کوئی اس کا ثبوت پیش نہیں کرسکتا کہ خلیل الملت حضرت شیخ خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ نے یہ بات’’ مدارج النبوۃ‘‘ سے لی ہے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے یہ بات’’ اشعۃ اللمعات‘‘ سے نقل کی ہے اور وہاں روایت کی سند پر کوئی بحث نہیں ہے بلکہ حضرت شیخ دھلوی نے اس روایت کہ مجھے دیوار کے پیچھے کا علم نہیں سے استدلال کرکے ایک اور بات ثابت کی ہے اور جب محدث ایک روایت سے استدلال کرکے کوئی مسئلہ ثابت کرتا ہے تو یہ اس روایت کو تسلیم کرنے کی دلیل ہوتی ہے ۔تو جو فتوی ہمارے اکابرین پر میثم شیطان یا احمد رضا خان نے لگایا وہی شیخ دھلوی پر بھی لگائیں ورنہ منافقین کی صف میں اپنا شمار کرو۔
ہم یہاں شیخ علیہ الرحمۃ کی عبارت بعینہ نقل کردیتے ہیں:
’’بداں کہ ایں دیدن آنحضرت ﷺ از پس و پیش بطریق خرق عادت بود بوحی یا الہام و گاہ گاہ بود نہ دائم و موئد آن است آنچہ در خبر آمدہ است چوں ناقہ آنحضرت گم شد دور نیافت کہ کجا رفت منافقاں گفتند کہ محمدی گوید کہ خبر آسماں می رسانم و نمی داخذ کہ کہ ناقہ او کجااست پس فرمودہ آنحضر ت واللہ من نمی دانم مگر آنچا بدانا ند مرا پروردگار من اکنوں بنمود مرا پروردگار کہ من وے درجائے چنیں و چناں است و مہار دے در شاخ درخت بند شد است و نیز فرمودہ کہ ’’من بشرم نمی دانم کہ در پس ایں دیوار چیست یعنی بے نانیدن حق سبحانہ ‘‘۔
(اشعۃ اللمعات :ج۱:ص ۳۶۵،مکتبہ نوریہ رضویہ)
ترجمہ :جان لے کہ دیکھنا آنحضرت ﷺ کا آگے سے اور پیچھے سے بطور خر ق عادت تھا وحی اور الہام سے کبھی کبھی تھا نہ ہمیشہ اور اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کی ناقہ مبارکہ گم ہوگئی تھی اور یہ معلوم نہ ہوا کہ کہاں گئی تو منافقوں نے کہا کہ محمد ﷺ کہتے ہیں کہ میں آسمان کی خبردیتا ہوں اور ان کو کچھ خبر نہیں کہ ناقہ کہاں ہے۔تب آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قسم اللہ کی کہ میں نہیں جانتا مگر وہ کہ پروردگار مجھ کو بتلادے اب میرے پروردگار نے مجھ کو بتلادیا ہے کہ فلاں جگہ اس کی مہار ایک درخت کی شاخ میں بندھی ہوئی ہے اور ایک یہ بھی کہ ’’حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں بشر ہوں میں نہیں جانتا کہ اس دیوار کے پیچھے کیا ہے یعنی بے بتلائے حق سبحانہ و تعالی‘‘۔
بریلوی ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ تمہار ا عقیدہ ہے کہ نبی ﷺ کو دیوار کے پیچھے کا علم نہیں تو اس اعتراض سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو پاپائے بریلی احمد رضا خان کے ملفوظات میں منقول ہے کہ :
’’ایک دفعہ جبرئیل کل حاضری کا وعدہ کرکے چلے گئے دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتظار ہے کافی انتظار کے بعد جب باہر جاکر دیکھا تو جبرئیل باہر تشریف فرما ہیں الخ ۔۔‘‘۔
( ملخصا ملفوظات ص ۳۵۴ )
فاضل بریلی کے اس ملفوظ سے معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ ’’دیوار کے پیچھے کون ہے‘‘ ورنہ انتظارکرنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ اور نہ ہی اس بات کا علم تھا کہ چارپائی کے نیچے کیا ہے تو رضاخانیوں کو چاہئے کہ ہم پر بکواس کرنے سے پہلے اپنی چارپائی کے نیچے جھاڑو پھیریں۔ اب کفر کا فتوی میثم شیطان کا احمدرضا خان پر جائیگا اور یہی اہل بدعت کی علامت ان کے بڑوں نے لکھی ہے ۔
اور غلام رسول سعیدی لکھتا ہے کہ :
’’اس حدیث میں یہ اشکال ہے کہ جب آپ کی پشت پر نجاست رکھ دی گئی تو پھر آپ کس طرح بدستور نماز پڑھتے رہے ؟صحیح جواب یہ ہے کہ نبی ﷺ کو علم نہیں تھا کہ آپ کی پشت پر کیا چیز رکھی گئی ہے‘‘۔
(شرح مسلم :ج۵:ص۵۶۴،فرید بک سٹال جنوری ۲۰۰۲)
لیجئے بقول آپ کے شارح مسلم کہ نبی کریم ﷺ کو تو اپنی پشت کا بھی علم نہیں تھا تو جب دیوار کے پیچھے کا علم نہ ماننا گستاخی ہے تو وہ شخص کتنا بڑاگستاخ ہے جو یہ کہتا ہے کہ نبی ﷺ کو اپنی پشت کی بھی خبر نہیں؟جواب دو رضاخانیوں!!!
اور ذرا اس حدیث پربھی غور کرنا جس میں آتا ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا زکوۃ کا ایک مسئلہ نبی کریم ﷺ سے پوچھنے گئی اور آپ ﷺ کے دروازے پرکھڑی ہوگئی اور بلال کو مسئلہ پوچھنے کیلئے بھیجا اور ان کو یہ تاکید کی کہ’’ولا تخبرہ من نحن‘‘اور انہیں یہ مت بتلائے گا کہ ہم کون ہیں‘‘ ۔
(مشکوۃ:ج۱:ص ۱۷۲)
اب دیکھیں حضرت زینبؓ دروازے کے باہر سے بلالؓ کو کہہ رہی ہیں کہ ان کو بتلانا مت معلوم ہواکہ صحابہ کا بھی یہ عقیدہ تھا کہ بنا رب کے بتلائے نبی کریم ﷺ کو دیوار توکیا ، دروازے کے باہر کیا ہے اس کا بھی علم نہیں ورنہ حضرت بلالؓ ضرور یہ کہتے کہ میں کیسے نہ بتلاؤں؟ اور انہیں نہ بتلانے کا فائدہ کیا ہے جب وہ ساری دنیا کو مثل ہتیھلی کے دیکھ رہے ہیں میثم رضاخانی بتا تیرا صحابہ پر کیا فتوی ہے ؟۔
اور آگے ایک بات مولانا رحمۃ اللہ مہاجر مکی کے حوالے سے لکھی ہے کہ ان کی بات ہرگز ہرگز نہ سنی جائے تو جواباً عرض ہے کہ یہ تمہاری کتاب کا حوالہ ہے جس کا جواب دینے کی قطعاً ہمیں ضرورت نہیں۔ البتہ اگر انوار ساطعہ نامی اپنی کتاب میں دیکھ لو جو تحریر ان کی طرف منسوب ہے اس میں صاف صاف موجود ہے کہ اس معاملے کو جتنا دبا سکتے ہو دباؤ ۔ یعنی علماء دیوبند کے خلاف لکھنے سے گریز کرو۔ اگر میثم وہ بات ٹھیک ہے تو یہ غلط اور اگر یہ ٹھیک ہے تو وہ غلط۔اور آگے لکھاہے کہ مولوی اشرف علی تھانوی اپنے اوپر کفر کا الزام نہ اٹھا سکے ،تو ہم یہی کہیں گے ہمارا بھی یہی دعویٰ ہے کہ فاضل بریلوی ساری زندگی الکوکب الیمانی علی اولادالزوانی کا جواب نہ دے سکے جس میں ان کا مسلمان نہ ہونا ثابت کیا گیا اور انکی اولاد حرامی ثابت کی گئی اور آج تک کوئی رضا خانی چیلہ ان کو حلالی نہ ثابت کرسکا ۔ باقی رہی حضرت حکیم الامت تھانوی ؒ کی بات تو یہ بالکل رضاخانیوں کا جھوٹ ہے تفصیل کیلئے حفظ الایمان مطبوعہ دارالکتب کا مقدمہ دیکھئے۔اس ساری شیطانیت کی قلعی کھل جائیگی ۔
آخری عرض:
سنی بھائیوں! قادیانیوں،رافضیوں، بریلویوں،غیر مقلدین، چکڑالوی ، جماعت المسلمین ، خارجی سب سے اپنے ایمانوں کو بچائیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ رافضی ، و خارجی آج کل شکل بدل کر رضا خانی روپ میں بھی آچکے ہیں ۔ اس لئے اس فتنہ سے خاص طور پر اپنے ایمان کو محفوظ رکھیں ۔
سیف ربانی برعنق رضا خانیمولانا کاشف رضاقادریقارئین ذی وقار! کلمہ حق شمارے کا ایڈیٹر جو عبدالمصطفی رضوی ہے یہ اصل میں فاضل بریلوی کا چیلہ میثم رضوی ہے۔ سنیوں کی سیف کا اتنا اثر ہوا کہ اپنے نام سے بھی بھاگ گیا۔ میثم!! سنیوں کی سیف نے تمہاراجیناحرام کردیا ۔ لو اب یہ ’’ قہر حق ‘‘ بھی دوسرا رسالہ تیری گردن پر ہے اور انشاء اللہ خدائی قہر و غضب کے سامنے تیری ہمت نہیں کہ تو ٹھہر سکے ۔ قارئین کرام! آج خارجیت کی بگڑی ہوئی شکل رضا خانیت ہے ۔ یہ خارجیت کے فتوے بریلویت پر ہم نے اپنی طرف سے نہیں لگائے بلکہ ہم تو ناقل ہیں تمہاری کتب ضرب ختین ،سوئے حجاز ، زبدۃ التحقیق میں اس قسم کے فتوے بریلویوں پر درج ہیں ۔
خارجی اپنے علاوہ لوگوں کی تکفیر کرتے ہیں اور یہی بات رضا خانی شیاطین و خناس کہتے ہیں دیکھئے انوار شریعت ج ۱ ص ۱۴۰،فتاویٰ صدر الافاضل ص ۱۳۴، الصوارم الہندیہ ص ۱۳۸۔بہرحال آج خارجیت کی تصویر بریلویت کی شکل میں نظر آتی ہے شاید کوئی یہ کہے کہ خارجی تو اہل بیت کے دشمن تھے یہ تو نہیں تو ہم جواب میں عرض کرتے ہیں کہ یہ لوگ بھی اہل بیت کی شان میں بکتے چلے جاتے ہیں ۔
کیا یہ بات کہ :
(۱) ازواج مطہرات انبیاء کی قبور مطہرہ میں پیش کی جاتی ہیں اور وہ ان سے شب باشی فرماتے ہیں (ملفوظات )
(۲) ام المومنین حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں ایسے لفظ کہہ جاتیں تھیں اگر کوئی دوسرا کہے تو گردن ماری جائے ( ملفوظات )
(۳)سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے چہرہ اقدس کے متعلق لکھا ہے کہ گلاب کی پتیاں خاک میں مل گئیں ۔ (حیات صدر الافاضل )
(۴)تمہارے ملک کے جید عالم جس کی کتب پر تمہارے بڑے بڑوں نے تقاریظ لکھی ہیں اس نے واقعہ لکھا کربلا کا نام ’’شہید ابن شہید ‘‘رکھا۔اس میں واقعہ یہ لکھا کہ سیدہ زینب کے سر سے چادر اتری ہوئی اور ان کے بال بکھرے ہوئے۔ اس پر تمہارے گھر کے ایک آدمی نے تبصرہ لکھا کہ
’’کیا خاندان رسالت کی عظیم شاہزادی کا یہ عمل قرآن کریم اور احادیث نبویہ کے صراحۃ خلاف نہیں ہے ؟۔۔۔۔۔گویا صائم فیصل آبادی اس بے بنیاد عبارت سے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو قرآن وحدیث کے احکام کے خلاف کرنے والی ثابت کرنا چاہتا ہے‘‘۔
(میزان الکتب ص ۶۳۴ )
پھر آگے صائم چشتی کی اس بات کہ امام عالی مقام نے سکینہ کو گود میں لے کر آنکھوں کو صاف کیا پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ امام عالی مقام کی طرف انہیں منسوب کرنا کس قدر بے باکی اور گستاخی ہے(کیونکہ وہ شادی شدہ تھیں ) ‘‘۔
(میزان ص ۶۳۴ )
(۵) تمہارے ملک کے جید عالم افتخار الحسن زیدی نے ’’خاک کربلا ‘‘ کتاب لکھی اس کے متعلق تبصرہ پڑھیں ۔
’’اگر بنظر انصاف دیکھا جائے تو بہت سی گستاخیوں ( اہل بیت کرام کی ) سے بھری پڑی ہے‘‘۔ ( میزان الکتب ص ۸ ۶۳ )
اس دجال میثم یا کسی رضا خان کے چیلے سے دو امر مطلوب ہیں :
۱۔ کیا خارجیت تمہارے اندر ہے یا نہیں؟
۲۔ افتخار الحسن زیدی ، صائم چشتی اور ان کی کتب پر تقاریظ لکھنے والے بے ایمان ہیں یا تمہارا شیخ الحدیث محمد علی نقشبندی؟۔
القصہ ایسے بہت سے دلائل دئیے جاسکتے ہیں مگر ہم اختصار سے کام لیتے ہوئے اپنی بات کی طرف آتے ہیں کہ میثم کے گرو نے یہ الزام فخر المجاہدین شاہ اسماعیل شہید ؒ پر لگا دیا ہے وہ کہتے ہیں اللہ کے سوا کسی کو نہ مانو اس چیلہ شیطان و خناس کو ہم کہتے ہیں کہ اس کا جواب ہم بعد میں دیں گے پہلے یہ بتاؤ تمہارے گرو جی نے لکھا ہے کہ ۔۔
’’یہ حضرات تو توحید بتانے کیلئے تمام رسولوں سے بگڑے‘‘۔
(کلمہ حق شمارہ نمبر۷ :ص ۱۵ )
کیا یہ صرف لزوم کفر ہے؟ جو رسولوں سے بگڑ جائے اور گندی گالیاں دے تمہارے نزدیک مسلمان ہے کافر نہیں؟۔ اگر کفر ہے تو تیرا ابادجال اعظم احمد رضاخان اس کو مسلمان کہتا ہے پہلے اپنے بڑے گرو جی کو کفر کے پھندے سے نکالو اور توبہ کی خبر کے مشہور ہونے کا عذر بھی ہم نہیں چلنے دیں گے کیونکہ تمہارے ابلیس کے شاگرد فاضل بریلوی ( میثم اگر تم سیدنا آدم علیہ السلام کو ابلیس کا شاگرد ( معلم التقریر ص : ۹۵ ۔ بتا سکتے ہو تو ہم فاضل بریلوی کو کیوں شیطان کا شاگرد نہیں بتا سکتے؟ ) نے لکھا ہے کہ گستاخ رسول کی توبہ قبول ہی نہیں ہوتی ( تمہید ایمان ) تو پھر کافر نہ کہنا ایسے آدمی کو کفر نہ ہوا تو کیا اسلام ہوگا؟۔اور اگر کفر نہیں تو ہم ایسے گندے مذہب پر لعنت بھیجتے ہیں جہاں رسولوں سے لڑائی لینا کفر نہیں عین ایمان ہو۔شاہ شہید رحمہ اللہ کی عبارات کا تفصیلی جواب بعد میں پہلے اپنے پاپائے بریلی کو کفر سے نکالو۔
میثم کاچیف گرو لکھتا ہے:
نانوتوی کا شرک ۔ اور آگے کہتا ہے کہ وہ لکھتے ہیں معجزہ خاص ہر نبی کو مثل پروانہ تقرری بطور سند نبوت ملتا ہے اور بنظر ضرورت ہر وقت قبضہ میں رہتا ہے الخ ۔ دوسری طرف شاہ شہید ؒ کی عبارت لکھی ہے کہ جو یہ عقیدہ رکھے کہ معجزہ کے تصرف کرنے کا اختیار نبی کو ہوتا ہے یہ شرک ہے ( ملخصا کلمہ حق نمبر ۷ ص ۱۵ ،۱۶ )
الجواب : بات دونوں بزرگوں کی ٹھیک ہے خاص معجزہ نبی پاک علیہ السلام کا قرآن یہ ہر وقت آپ کے پاس محفوظ تھا ۔ اور شاہ شہید ؒ نے عام معجزوں کی بات کی ہے ۔ حجۃ الاسلام نے خاص معجزے کی بات کی ہے اور فخر المجاہدین نے عام معجزوں کی بات ہے ۔ لہٰذا تعارض و اشکال نہیں رہتا۔
میثم دجال کا یہ دجال گرو لکھتا ہے کہ :
’’ تھانوی صاحب کا شرک ‘‘ ۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کا رسالہ شمائم امدادیہ :عباد اللہ و عباد الرسول کہتے ہیں ،دوسری طرف عبد النبی رکھنا شرک قرار دیا گیا ہے ۔
( ملخصا کلمہ حق نمبر ۷: ص ۱۷ )
الجواب
جو اندھا مادر زاد ہووے وہ شمس و قمر کو کیا سمجھے
حاجی صاحب رحمہ اللہ صوفی و بزرگ آدمی ہیں بزرگوں کے متعلق اپنے آباؤ اجداد کے ملفوظات سن لیجئے:
(۱) آپ کے فانی صاحب لکھتے ہیں
’’صوفیاء کی غلبہ حال و استغراق کی باتیں دین میں حجت نہیں ہیں ‘‘۔
(انوار احناف ص ۱۲۰ )
(۲) شکیل عطاری لکھتے
’’حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں صوفی کا عمل دین میں حجت نہیں‘‘۔
(حاشیہ انوار احناف ص ۱۲۰ )
(۳) مولوی فدا حسین کہتا ہے:
’’بزرگوں کے غیر معتبر اقوال پر کان نہیں دھرے جاتے‘‘ ۔(حق چار یا ر ص ۳۶۹)
(۴)حنیف قریشی کے چیلوں نے لکھا ہے:
’’ملفوظات کے ذریعے صاحب ملفوظ پر طعن نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اکثر صوفیاء سے منسوب ملفوظا ت میں رطب و یابس کی بھر مار ہے‘‘۔(روئیداد مناظرہ گستاخ کون ص ۵۳۰)
لہٰذا بزرگوں پر طعن و تشنیع بھی نہیں ان کی تقلید بھی نہیں ۔ اس لیے اعتراض کی ضرورت نہیں ۔
میثم کا گرو جو جاہل معلوم ہوتا ہے وہ حضرت گنگوہی کے متعلق کہتا ہے کہ انہوں نے علم غیب تسلیم کرنے کو شرک نہیں کہا اور نہ تکفیر کی ۔ جبکہ شاہ شہید اور صاحب براہین علیہ الرحمۃ نے شرک کہا (ملخصاً کلمہ حق نمبر ۷ ص ۱۷ ،۱۸ )
تو جواب یہ ہے کہ حضرت گنگوہی سے علم غیب یا علم محیط کی بات نہیں پوچھی گئی بلکہ ایک ضروی واقعہ کے متعلق سوال ہوا جبکہ شاہ شہید نے تو کلی علم کی بات ہے اور یہی حضرت سہارنپوری کا مو قف ہے کہ زمین کا علم محیط نبی پاک علیہ السلام کیلئے ماننا شرک ہے اور شیطان کیلئے اس کے دائرہ کار کے علم پر قیاس کرکے آپ علیہ السلام کیلئے علم محیط ماننا غلط ہے کیونکہ شیطانی سوچ کہ ’’شیطان پر نبی علیہ السلام کو قیاس کرنا‘‘’’ شیاطین بریلویہ ‘‘کی ہی ہو سکتی ہے نہ کہ مسلمانان عالم کی لہٰذا اعتراض نہ رہا ۔
آخر میں پھر شاہ شہید رحمہ اللہ پر یہ خناس میثم کا دجال گرو با ت لے گیا ہے کہ انہوں نے یہ لکھا ہے وہ لکھا ہے ۔۔ اصولی بات یہ ہے کہ شاہ صاحب کو تم نے مسلمان لکھا ہے پہلے اس کا جواب دو کہ اگر وہ گستاخ تھے تو ایک گستاخ کو مسلمان لکھنے والا خود کیسے مسلمان ہوگیا ؟پہلے اس کا جواب دو۔مزید گرو جی کا چیلہ میثم شیطان توجہ کرے کہ اس کا ایک اور گرو لکھتا ہے کہ:
’’ظاہر ہے کہ انسان قادر ہے تو صرف کذب انسانی پر نہ کہ معاذ اللہ کذب ربانی پر اور شک نہیں کہ کذب انسانی ضرور قدرت ربانی میں ہے‘‘۔ ( استمداد : ص ۳۶ )
دوسرا گرویعنی احمد رضاخان لکھتا ہے :
’’یہ قضیہ بے شک حق تھا کہ جس پر انسان قادر ہے ان سب اور اس کے علاوہ نامتناہی
اشیاء پر مولیٰ عزوجل قادر ہے‘‘۔ ( اللہ جھوٹ سے پاک ہے: ص ۱۵۰ )۔ایک جگہ یوں ہے
’’ہم اہل سنت کے نزدیک اللہ تعالیٰ عین مقدورات عبد پر بھی قادر ہے‘‘۔ ( ایضاً ص ۱۴۹ )
ایک جگہ یوں ہے:
’’کذب ہو یا صدق کفر ہو یا ایمان حسن ہو یا قبیح طاعت ہو یا عصیان انسان سے جو کچھ واقع ہوگا وہ اللہ ہی کا مقدور اللہ ہی کا مخلوق ہوگا‘‘ ۔ ( ایضاً :ص ۱۴۷ )
آپ کے بڑے گرو صاحب نے انبیاء علیہم السلام کے کذب ممکن بالذات تسلیم کیا ہے ۔
( دیکھیئے اللہ جھوٹ سے پاک ہے: ص ۵۱ )۔
تو اب ہے کوئی رضاخانی دجال جو اٹھے اور ان عبارات پر بھی اسی خناسیت کا اظہار کرے جو شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق کی گئی ہیں؟یا یہاں وہی رضاخانیت والی منافقت کا اظہار کیا جائے گا؟۔
حنیف قریشی تقیہ باز شیعہ یا سنی۔۔؟؟؟
قریشی رضاخانی ۱۲ مارچ ۲۰۰۹ کو قائد ملت جعفریہ حامد علی شاہ موسوی کی زیر قیادت ’’مرکزی امام بارگاہ قصر شبیر ڈھوک سیداں راولپنڈی‘‘ میں خطاب کرنے گیا اشتہارمیں اس کا نام ’’خطیب آل بیت جناب حنیف قریشی صاحب‘‘ لکھا ہوا تھاَ ،اس کے علاوہ حضرت امیر معاویہؓ کی شان میں گستاخیاں یہ سب دیکھنے کیلئے وزٹ کریں
http://www.youtube.com/watch?v=_oN7Kl4hsBQ
یایوٹیوب سرچ میں لکھیں:Molvi Hanif Qureshi SHia ya Sunni (Shia Imam Baray may
میثم دجال کی طرف سے مولانا عبد اللہ شہید رحمہ اللہ پرمعاذ اللہ یزیدی ہونے کا الزامڈاکٹرعبد الرحمن مدنی نقشبندیبریلوی رسالے کے ایک دجال ایڈیٹر اور کلین شیو لعنت کا مستحق (احمد رضاخان نے داڑھی مونڈھنے والے کے متعلق ملفوظات میں یہی لکھا ہے )لاہور کا رہنے والاٹریفک پولیس میثم عباس رضوی رافضی دجال نے اپنے بدنام زمانہ رسالے ’’کلمہ حق‘‘کے شمارے نمبر۴میں حیدر آباد سے شائع ہونے والے ایک رسالے کے حوالے سے یہ الزام مولانا عبداللہ مرحوم خطیب لال مسجد اسلام آباد پر لگایا ہے کہ وہ ہمیشہ یزید کی حمایت کرتے اور اہل بیت کی تنقیص کرتے تھے، وہ کراچی اور لاہور سے ناصبیوں اور یزیدیوں کی کتابیں منگوا کر تقسیم کیا کرتے تھے۔ یہ آنمرحوم پر الزام نہیں بلکہ مولانا مرحوم کا یزیدی ہونا، خود انہی کے خطوط اور تحریرات سے، مولانا قاضی مظہر حسین رحمہ اللہ بھی اپنے ماہنامے ’حق چار یار‘ میں حتمی دلائل کے ساتھ ثابت کرچکے ہیں‘‘۔(ملخصا کلمہ حق)
پہلی بات تو یہ کہ جب ہم مولوی اقتدار خان نعیمی ،یا ابو الخیر حیدر آبادی ،یا طاہر القادری کا کوئی حوالہ ان رضاخانیوں کے سامنے پیش کریں تو فورا سیخ پا ہوجاتے ہیں کہ ہمارا معتبر عالم نہیں تو جواب طلب امر یہ ہے کہ ’’ محمد موسی بھٹو‘‘ جس کے رسالے کا حوالہ پیش کیا گیا سنی مسلک میں اس کا کیا مقام ہے ؟اور کیا اس شخص کا تعلق ہمارے اکابرین سے ہے ؟اگر اس قسم کے لوگوں کے حوالے حجت ہیں تو اقتدار،ابو الخیر،اور طاہر الپادری کے حوالے حجت کیوں نہیں؟تم نے خودابو الخیر کی ایک بات کے متعلق لکھا کہ یہ اس کی بکواس ہے تو اگر جمعیت علماء اسلام کے ایک ذمہ دار آدمی کی بات بھی بقول تیرے بکواس ہوسکتی ہے تو ہم بھی کہتے ہیں کہ یہ محمد موسی بھٹو حیدر آبادی کی بکواس ہے ۔
پھر محمدموسی صاحب کی دیانت کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ وہ کسی اور کا مضمون بعینہ اپنے نام پر شائع کرتے ہیں جس پر جتنا بھی افسوس کرلیا جائے کم ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ مضمون مولوی سعید خان اسلام آبادی کا ہے اسی نے یہ اعتراضات کئے تھے اور اسی وقت حضرت مولانا عبد اللہ صاحب شہید رحمۃاللہ علیہ کے ساتھ ۱۱ سال تک رہنے والے مفتی ریاض صاحب مدظلہ العالی جو جامعہ فریدیہ اسلام آباد کے نائب مفتی تھے نے جواب دیا (آج کل حضرت آسٹریلیا میں مقیم ہیں)ہم مفتی صاحب کے ہاتھ کا لکھا ہوا جواب آپ کے سامنے بعینہ نقل کردیتے ہیں:
جواب مفتی ریاض صاحب،سابق نائب مفتی دارالافتاٗ،جامعہ فریدیہ، اسلام آباد:
دینی حلقوں اوراکابر علما کے ہاں مولانا شہید رحمہ اللہ کی جو حیثیت تھی اور اللہ نے ان سے جو اپنے دین کا کام لیا ‘ وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، ان کے متعلق اکابر علما ء کے خیالات بہت سے رسالوں کتابوں میں چھپ چکے اور ان پر کئے گئے بزرگوں کے تحریری اعتماد کو انکی سوانح عمری میں بھی جمع کیا گیا ہے، اس سب موادکی موجودگی میں میرے کسی لمبے چوڑے جوابات کی چنداں ضرورت نہیں، لیکن میں پھر بھی چند ضروری باتیں عرض کردیتا ہوں۔
اعتراض :مولانا عبداللہ مرحوم خطیب لال مسجد اسلام آباد ہمیشہ یزید کی حمایت کرتے اور اہل بیت کی تنقیص کرتے تھے:
حقیقت میں یہ اعتراض مولانا مرحوم پر محض بہتا ن ہے، اور لگانے والے کو ہی مشکوک بنا رہا ہے۔ ، مولانا مرحوم کا یزید کے بارے میں موقف وہی اعتدال والا اور اہل السنت والجماعت والا تھا، اسکی شہادت میں مولانا کا وہ خطبہ ہی کافی ہے جو وہ جمعہ کی نماز کے بعد پڑھا کرتے تھے۔ قارئین اس سے انکے مسلک کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
’وقال علیہ السلام فی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ، اللھم اجعلہ ھادیامھدیا اوھدبہ ، وصلی اللہ علی جمیع الصحابۃ والتابعین خصوصا علی ازواج النبی صلی علیہ وسلم وعلی بناتہ الاربعۃ زینب و رقیہ وام کلثوم وفاطمۃ وعلی سیدالشھدآء حمزۃ وعلی سیدی الشباب اھل جنۃ الحسن والحسین رضی اللہ عنہم۔۔۔۔‘‘
میں نے پورا خطبہ درج نہیں کیا،(پورا خطبہ حیات شہید اسلام :ص ۲۴۳تا۲۴۵پر ملاحظہ فرمائیں ۔از مدنی) جسمیں اور بہت سی حدیثیں ہیں ،شاید عام لوگوں کے لیے اہل بیت کے بارے میں جمعہ کے خطبے میں یہ پڑھنا ممکن بھی نہ ہو جو وہ ساری زندگی پڑھتے رہے۔ کیا کوئی انصاف پسند اور باہوش آدمی اس خطبہ کو پڑھنے کے بعد یہ کہہ سکتا ہے کہ مولانا شہید اہل بیت کی تنقیص کیا کرتے تھے ؟۔کیا یزید کا حامی اور اہل بیت کی تنقیص کرنے والا کوئی آدمی ان جملوں کو ہر جمعہ اپنے خطبہ کا حصہ بنانا گوارہ کرسکتا ہے ؟
اس خطبہ سے تو تمام صحابہ ، اہل بیت اورحضرت معاویہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ اظہار محبت اور انکے بارے میں اعتدال پسند ی اور انکے بارے میں افراط وتفریط سے بچ کرچلنے کا درس ملتا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ جو آدمی اہل بیت کا مخالف ہو ، اسکی زبان سے اہل بیت کی تعریف نہیں ہوسکتی، بلکہ وہ یزید کی تعریف میں ہی رطب اللسان رہتا ، اگر تعریف نہیں تو کم ازکم اسکا تذکرہ تو ضرور کرتا ۔مجھے الحمداللہ گیارہ سال تک جامعہ میں پڑھانے اور مولانا شہید کی مجالس میں اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا ، جس کی بنا پر میں حلفا کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اہلبیت کی تعریف تو ہمیشہ سنی ، یزید یا یزیدی لشکر کی تعریف کبھی نہیں سنی، مذکورہ بہتان تو حب علی کے پردے میں بغض معاویہ کا مظاہر ہ ہے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ ایک آدمی یزیدی ہوکر بھی یزید کے بارے میں خاموش رہتا ہے اور اہل بیت کی تعریف ہر جمعہ اپنے خطبہ میں کرتا ہے، ایسا آدمی تو اپنے آپ کو یزیدی کہے تب بھی کوئی ماننے کو تیار نہیں ہوگا۔کیا مولانا شہیدپر ناصبی یزید ی ہونے کا الزام لگانا حقیقت کو جھٹلانے کے مترادف نہیں ہے ؟
لال مسجدمیں نماز پڑھنے والے اور اہل علاقہ جانتے ہیں کہ مولانا اہل بیت کے کتنے مداح تھے، اس سلسلے میں بہت سے واقعات بھی پیش آتے رہتے تھے، جن میں مولانا مرحوم کے اہل بیت کے بارے میں وعظ سن کر اسلام آباد کے مشہور ہسپتال پمز کے ایک رافضی ڈاکٹر کا رافضیت سے تائب ہونے کا واقعہ مشہور ہے۔
اعتراض:مولانا شہید کراچی اور لاہور سے ناصبیوں یزیدیوں کی کتابیں منگوا کر تقسیم کیا کرتے تھے ۔
معلوم نہیں معترض کس کتاب کی بات کررہے ہیں، میرے سمیت جامعہ فریدیہ کا کوئی بھی پرانا استاد حلفا کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے کبھی بھی مسجد یا مدرسہ میں یزید کے حق میں کوئی کتاب یا پمفلٹ تقسیم ہوتے نہیں دیکھا۔ ہاں لال مسجد کے باہر ہر مسلک کے لوگ اپنے اپنے پمفلٹ تقسیم کرتے تھے اور کرتے ہیں ، جسکو روکنا مولانا کے بس میں نہیں اور نہ اسکی ذمہ داری لال مسجد کی انتظامیہ پر آتی ہے۔ اگر باہر کسی نے کوئی اس طرح کی کتاب تقسیم کی تھی تو اس الزام کومولانا شہید پر تھوپنا ، یا یہ کہنا کہ مولانا خود یہ کرواتے تھے ، کہاں کا انصاف ہے؟۔
اعتراض : مولانا مرحوم کا یزیدی ہونا، خود انہی کے خطوط اور تحریرات سے، مولانا مظہر حسین رحمہ اللہ بھی اپنے ماہنامے ’حق چار یار‘ میں حتمی دلائل کے ساتھ ثابت کرچکے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ مولانا مرحوم کا مولانا مظہر حسین کے ساتھ شروع میں اختلاف رہا تھا جو کہ بعد میں د ور ہوگیا تھا۔ اس اختلاف کی وجہ یہ بنی تھی کہ جامعہ کے ایک استاد نے کربلا کے موضوع پر ایک کتاب لکھی جس پر مولانا مظہر حسین کو اختلاف تھااور انہوں نے مولانا عبداللہ شہید سے یہ مطالبہ کیا کہ اس استاد کو جامعہ سے فارغ کردیا جائے، اس پر مولانا تیار نہیں تھے کیونکہ اس کتاب میں کوئی ایسی بات نہیں لکھی گئی تھی جو ہمارے اکابر کے مسلک کے خلاف ہو، یا جس سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوگیا ہو یا فاسق وفاجر بن گیا ہو۔محض دونوں کے درمیان اس اختلاف کی بنیاد پر مولانا مرحوم کو ناصبی یزیدی قرار دے دینا ناانصافی اور بہت بڑا الزام ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ دونوں عالم دین تھے علما ء کے درمیان کسی مسئلہ میں اختلاف ہو نا کوئی عجیب بات نہیں ، اور یہاں اختلاف بھی کفر اسلا م یا حلال حرام کے مسئلہ پر نہیں تھا بلکہ بنیاد ایک غلط فہمی تھی۔ اس ناراضگی کو دور کرنے کے لیے دونوں کے درمیان بعد میں بھی خط وکتابت چلتی رہی، اور مولانا قاضی صاحب رحمہ اللہ سے ملاقات کے لیے بھی جاتے ، یہاں تک کہ ایک دفعہ جیل میں بھی جاکر ان سے ملاقات کی، اور شہادت کے ایام میں بھی ملاقات ہوتی رہی، مولانا جب بھی ان سے مل کرآتے تو ہمارے سامنے اسکا تذکرہ ضرورکرتے تھے، جن سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ مولانا کی غلط فہمی دور ہوگئی تھی، مزید مولانا عبداللہ رحمہ اللہ کی سوانح عمری میں مولانا فیاض خان سواتی ابن مولانا عبدالحمیدسواتی رحمہ اللہ جنکا مولانا مظہر حسین رحمہ اللہ کے ساتھ انتہائی گہرا اور قریبی تعلق تھا ’ کا مولانا عبداللہ شہید رحمہ اللہ کے بارے میں لکھے گئے مضمون پڑھنے سے بھی دونوں بزرگوں کے درمیان قلبی تعلق کا پتا چل سکتا ہے۔
مفتی صاحب کا جواب یہاں ختم ہوا۔مزید اتمام حجت کیلئے فقیر یہاں مولانا عبد العزیز ابن مولانا عبد اللہ صاحب شہید رحمۃ اللہ علیہ سے ہونے والی گفتگو من و عن پیش کررہا ہے:
مولانا۔۔۔۔۔عبد العزیز بات کررہا ہوں۔۔۔
فقیر:جی۔۔کیسی طبعیت ہے ۔۔۔خیریت سے ہیں ٹھیک ہیں۔۔۔؟
مولانا۔۔۔ جی الحمد للہ۔۔۔
فقیر: میں نے آپ سے ایک بات پوچھنی تھی۔۔۔
مولانا۔۔۔ جی۔۔۔۔
فقیر: یہاں پر کچھ ہمارے علاقے میں اہل بدعت۔۔یہ پروپگینڈا کررہے ہیں کہ آپ کے والد مولانا عبد اللہ شہید صاحب ۔۔۔وہ یزید کے متعلق کتابیں منگواتے تھے۔۔۔اور اس سلسلے میں انہوں نے ’’بیداری مئی ۲۰۱۰ کا شمارہ ہے ۔۔۔۔یہ ہے شمارہ۔۔۔۔محمد موسی۔۔کوئی محمد موسی بھٹو ہے۔۔۔۔تو آپ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں ۔۔۔کہ وہ لوگ شور کررہے ہیں ۔۔۔کہ معاذ اللہ آپ کے والد یزیدی وغیرہ ہیں۔۔۔تو کیا آپ کے علم میں ایسی کوئی بات ہے ۔۔۔کہ مولانا عبد اللہ صاحب شہید رحمۃ اللہ علیہ یزیدکی حمایت میں کتابیں وغیرہ منگوایا کرتے تھے۔۔۔
ع: ْ۔۔۔یہ پروپگینڈا ہے سارا۔۔۔۔۔۔
فقیر: جی مولانا عبد العزیز صاحب بات کررہے ہیں۔۔۔؟
ع: ۔۔جی۔۔جی۔۔۔
فقیر: معذرت چاہتا ہوں لائن کٹ گئی تھی میری۔۔۔اچھا آپ ۔۔۔یعنی یہ اس سب کو پرپگینڈا کہہ رہے ہیں۔۔۔تو ان حضرات کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے۔۔۔جو یہ جھوٹا پروپگینڈا کررہے ہیں۔۔۔یہ بیداری مئی ۲۰۱۰ کا، رسالہ ہے محمد موسی بھٹو ۔۔ان کو اگر آپ کوئی پیغام دینا چاہیں جو اس طرح کا پروپگینڈا کررہے ہیں ۔۔آپ کے والد صاحب کے خلاف۔۔۔
ع: ۔۔دیکھیں میں اس بارے میں یہی پیغام دینا چاہوں گا ۔۔کہ اس وقت مسلم امہ کے مسائل ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ ۔۔۔بڑھ کر ہیں کہ ہم ان بحثوں میں پڑیں۔۔اور یہ بلاوجہ مولانا کے خلاف پروپگینڈا ہے۔۔۔کہ مولانا ایسی کتابیں فروخت کرتے تھے۔۔۔یا لال مسجد میں تقسیم کیا کرتے تھے۔۔۔اگر ایسا ہوتا تو یزیدکے حق میں مولانا کی کوئی تقریرہوتی۔۔۔لیکن قطعا ایسا نہیں۔۔ہے کہ مولانا کی کوئی تقریر اس حوالے سے کوئی پیش کرسکے۔۔۔۔یا مولانا کا کوئی رسالہ لکھا ہوا ہو۔۔۔یا مولانا ایسی کتابیں تقسیم کرتے تھے۔۔یہ سب پروپگینڈا ہے۔۔۔
فقیر: اچھا جی بڑی مہربانی ہم نے یہی وضاحت آپ سے پوچھنی تھی ۔۔کیونکہ وہ شور کررہے ہیں۔۔۔۔مولانا ایسے تھے۔۔۔
ع: ۔۔دیکھیں اگرایساہوتا توکوئی میری تقریر ہوتی ۔۔۔علامہ غازی کی کوئی تقریر ہوتی ۔ ۔ ۔ میری تقریر ہے؟؟؟؟؟مولانا عبد اللہ شہید کی کوئی تقریر ہے؟؟؟؟۔۔۔۔تو بہرحال ۔۔۔اس کے کفر میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔۔۔لیکن اس کیلئے ۔۔۔کہ اس کے حق میں کوئی تقریر ہے ۔۔۔یا ان کے حق میں کتابیں لکھنا ۔۔۔یاتقسیم کرتے تھے۔۔۔یہ غلط ہے۔۔۔۔۔ پروپگینڈا ہے۔۔
فقیر: بس۔۔۔حضرت ہم نے کہا کہ چلیں آپ سے ایک وضاحت لے لیں ۔۔۔تاکہ یہ ریکارڈ پر ایک بات آجائے ۔۔۔کہ جو شر پسند ایسی باتیں کررہے ہیں۔۔۔
ع: ۔۔۔جی ۔۔۔جی ۔۔۔یہ وہ لوگ ہیں۔۔۔جن کا کوئی اور مقصد نہیں ہے۔۔۔بلاوجہ ایسے مسائل پید اکررہے ہیں۔۔۔۔کوئی کام تو ہے نہیں۔،۔۔۔دین کا کوئی کام تو ہے نہیں۔۔۔۔
فقیر: بالکل باکل۔۔۔اچھا جی بڑی مہربانی ۔۔۔آپ ہمیں دعاؤں میں خصوصی طور پر یاد رکھیں۔
یہاں مولانا عبد العزیزصاحب رحمۃ اللہ علیہ نے صاف طور پر اس بات کا رد کیا کہ میرے والد اور استاد معاذ اللہ یزید کے حمایتی تھے یا یزید کے حق میں کتابیں تقسیم کرتے تھے،اور مولوی نصیر الدین سیالوی لکھتا ہے کہ :
مولانا غلام مہر علی صاحب مدظلہ مولانا غلام محمد گھوٹوی صاحب کے بالواسطہ شاگرد ہیں تو وہ ان کے مذہب کے بارے میں سرفراز سے بہتر جانتے ہیں‘‘۔
(عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ:حصہ اول ،ص ۵۱)
تو مولانا عبد العزیز صاحب مدظلہ العالی مولانا عبد اللہ صاحب شہید کے بالواسطہ شاگرد ہیں وہ ان کا مذہب میثم دجال سے زیادہ جانتے ہیں۔
ایک اور جگہ سیالوی لکھتا ہے کہ :
’’مولانا دیدار علی شاہ محدث الوری کا نظریہ الرشید والے کی نسبت ان کی اولاد امجاد بہتر جانتی ہے ‘‘۔ (ایضا :ص ۶۱)
تو دجال میثم مولانا عبد اللہ صاحب شہید رحمۃ اللہ علیہ کا نظریہ سعید خان اسلام آبادی اور محمد موسی بھٹو حیدر آبادی کے مقابلے میں ان کی اولاد و امجاد زیادہ بہتر جانتی ہے۔
باقی ’’حیات سیدنا یزید رحمۃ اللہ علیہ‘‘ پر تقاریظ یا مولانا عبد اللہ صاحب کا خط اسی طرح جعلی ہے جس طرح ’’رشید ابن رشید‘‘ نامی کتاب پر جعلی تقاریظ ہیں اور جس طرح احمد سعید کاظمی کی تقریظ بقول تمہارے دیوان محمدی پر جعلی ہے ۔اور اس کتاب پر مولانا عبد اللہ صاحب کا خط نقل کیا گیا ہے اور خط کا تو ویسے بھی میثم دجال کے مذہب میں کوئی اعتبار نہیں (ملفوظات)۔
آگے میثم نے اپنی جہالت اور خباثت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قاضی مظہر حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ یزیدی فتنہ دیوبندیت میں پھیل رہا ہے تو اگر بعض جاہل و ناواقف لوگ اپنی جہالت و کم فہمی کی وجہ سے اس فتنے میں مبتلا ہورہے ہیں تو اس میں ’’مسلک‘‘ کا کیا قصور ؟کل کو اگر میثم رضاخانی کی الٹی عقل سے کوئی میثم کا عیسائی یا ہندو بھائی مسلمانوں کو شراب پیتا ہوا یا زنا کرتا ہوا دیکھے تو وہ یہ اعتراض کرنے لگ جائے کہ اسلام میں معاذ اللہ زنا اور شراب کو فروغ مل رہا ہے تو کیا میثم اس سلسلے میں اسلام کو قصور وار ٹھرائیے گا؟تف ہے تیری جہالت اور تعصب پر۔تیرے مذہب کا کمپوڈر احمد یار گجراتی لکھتا ہے کہ :
’’فی زمانہ بہت سے سنی کہلانے والے ’’بزرگ‘‘ بغض معاویہ کی بیماری میں گرفتار ہیں۔اہل دل حضرات اس حالت پر خون کے آنسو روتے ہیں‘‘۔
(امیر معاویہؓ پر ایک نظر:ص۱۳،قادری پبلشرز لاہور)
تمہارا پاپائے گجرات کہتا ہے کہ ’’سنی کہلانے والے بزرگ‘‘ اور میلسی میں رہنے والا تیرا رضاخانی دجال مولوی حسن علی رضوی ’’بزرگ‘‘ کی تشریح’’نبی و رسول ،صحابی و لی‘‘ سے کرتا ہے ۔
(وصایا شریف :ص ۴۵)
اب کر!!! اپنے اس ابا پر بھی اسی طرح کی بکواس جو کہتا ہے کہ معاذ اللہ صحابہ او ر ولی بھی بغض معاویہ میں مبتلا ہیں۔پہلے اپنے گھر کا گند صاف کر پھر کہیں اور اپنی دجالیت کا مظاہرہ کرنا،فی الحال تیری طبعیت صاف کرنے کیلئے یہ چند حوالے اور مختصر جواب دیا ہے اگر پھر بھی افاقہ نہ ہو تو تیرے جیسوں کی خدمت کیلئے ہم ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
احمد رضاخان کاادبی لطیفہ او ر رضاخانی علامہ صاحبظفر الدین لکھتا ہے کہ:’’مولوی خرم علی صاحب بلہوری ایک مشہور وہابی ہیں ان کی ایک کتاب مشہور مشرک گر ہے ، جسکا نام نصیحۃ المسلمین ہے ۔۔۔مطبع والے نے مصنف کا نام اس طرح ملا کر لکھا ’’خرمعلی‘‘۔ میں نے جس زمانے میں حضر ت کا کتب خانہ درست کرنا شروع کیا ۔۔۔مصنف کا نام ’’خَرِ معلی‘‘ دیکھ کر سمجھا کوئی کتاب مذاق کی ہے ۔۔مصنف کا نام کاتب نے بد املا لکھا خرم کی ’’م‘‘ کو ’’علی‘‘ میں ملا کر ’’معلی‘‘ کی شکل کا لکھا۔اعلی حضرت نے ا س پر اعراب لگادیا ۔(حیات اعلی حضرت :ج۱:ص ۲۴۲۔عنوان ادبی لطیفے)اس حوالے سے معلوم ہوا کہ جس شخص کا نام ’’خرم ‘‘ ہو اس کو ’’خر (گدھا) پڑھنا لکھنا احمد رضاخان کے ہاں ادبی لطیفہ کہلایا جاتا اب ذرا کلمہ حق شمارہ ۸ کی فہرست میں نمبر ۸ پر دیکھیں ایک مضمون نگار کا نام ’’علامہ ابو الحسن محمد ’’خرم‘‘ رضا قادری ‘‘ لکھا ہے تو اب اگر یہ علامہ واقعی اعلی حضرت کے ماننے والے ہیں تو آئیندہ سے اپنے نام کو ’’خرم ‘‘ لکھنے کے بجائے ’’خر‘‘ لکھا کریں اور فخر سے کہیں میں ’’علامہ گدھا رضا‘‘ ہوں اور مجھے اپنے ’’گدھے ‘‘ ہونے پر فخر ہے کیونکہ یہ لقب میرے باپ نے مجھے دیا ہے اگر ایسا نہ کریں گے تو ثابت ہوجائے گا کہ یہ اپنے باپ کی نمک حرامی کررہے ہیں۔
نام نہاد کلمہ حق فتووں کی زد میں
(قسط اول)
پروفیسرصبغت اللہ راشدی نقشبندی مجددی
قارئین کرام! بانی بریلویت احمد رضاخان کے متعلق عام عوامی تاثر یہی تھا کہ اس نے بریلی میں کفر ساز مشین گن نصب کی ہوئی ہے (انوار رضا) اس کے مرنے کے بعد اس شخص کو ماننے والی بھیڑوں نے اس کفر ساز مشین گن کو ایسا چلایا کہ نہ اپنے بچے نہ پرائے اس کی تازہ ترین مثال بریلوی مغلظات نامہ اور سنڈاس سے بھی زیادہ بدبودار رسالہ نام نہاد ’’کلمہ حق لاہور‘‘ ہے علمائے اہلسنت کے بغض نے انہیں ایسا بدحواس کردیا کہ ان کے بدبودار قلموں سے نہ اپنے محفوظ رہ سکے نہ خود بچ سکے اس مضمون میں ہم صرف چند حوالے نقل کریں گے۔
حوالہ نمبر ۱:
اس رسالے میں لکھا ہے کہ:
مولوی اشرف علی تھانوی کے خلیفہ حافظ عنایت علی شاہ دیوبندی نے حضور ﷺ کو بہروپیا کہا نعوذ باللہ ۔جوکہ حضور علیہ السلام کی شدید گستاخی ہے ۔
(کلمہ حق :شمارہ نمبر ۴ ،ص ۱۴)
گویا جو نبی کریمﷺ کو بہروپیا کہے وہ گستاخ ہے اور گستاخ کے متعلق خود کلمہ حق میں لکھا ہے کہ اس کی اصل میں خطاء ہے وہ حرامی ہے نار جہنم کا مستحق ہے ۔اب ذرا بریلوی اپنے گھر کی خبر لیں غلام معین الدین آف گولڑہ شریف نبی کریم ﷺ کے متعلق لکھتا ہے کہ :
ہر ایک رنگ میں الٰہی رنگت دکھا کر
زمانے میں بہرو پیا بن کے آیا
(اسرار المشتاق :ص ۲۷)
اس کتاب کا تعارف بریلوی استاد العلماء فیض احمد گولڑوی نے لکھا ہے ۔اب اگر کلمہ حق میں لکھنے والے واقعی حلالی ہیں اور خود کو عاشق رسول ﷺ کہتے ہیں تو اس کتاب کو لکھنے والے ا س کی تائید کرنے والے اس کو چھاپنے والے سب کے متعلق اپنے اگلے شمارے میں یہ فتوی شائع کریں کہ یہ سب کافر جہنمی ولد الزنا ہیں اگر نہیں تو اس گستاخی پر خاموش رہ کر کلمہ حق کی انتظامیہ نے خو د اپنا کافر ہونا تسلیم کرلیا۔
حوالہ نمبر ۲:
مولوی ابو الباطل غلام مرتضی لکھتا ہے کہ :
جو آپ کی بشریت مقدسہ کا مطلقا انکار کرے ہمارے نزدیک وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے ‘‘۔ (کلمہ حق شمارہ نمبر ۴ :ص ۲۷)
جبکہ ساقی صاحب کے مذہب کے کمپوڈر احمد یار گجراتی صاحب لکھتے ہیں کہ:
’’ان کو بشر ماننا ایمان نہیں‘‘۔(تفسیر نعیمی :ج۱،ص ۱۰۰)
جبکہ کمپوڈر صاحب کے استاد نعیم الدین مراد آبادی لکھتا ہے کہ :
’’اس سے معلوم ہواکہ کسی کو بشر کہنے میں اس کے فضائل و کمالات کے انکار کا پہلو نکلتا ہے قرآن پاک میں جا بجا انبیاء کرام کے بشر کہنے والوں کو کافر فرمایا گیا ‘‘۔
(خزائن العرفان :ص ۲)
اب جس لفظ میں فضائل و کمالات کے انکار کا پہلو نکلتا ہے جس لفظ کو ماننا ایمان نہیں یعنی بے ایمانی ہو جس لفظ پر قرآن میں کفر کا فتوی لگے یہ ساقی کہتا ہے کہ اس کا انکار کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اب میثم رضاخانی جواب دے کہ ہم ساقی کا فتوی ماننے یا آپ کے پچھلے آباو اجداد کے فتووں کو آپ کا جماعتی موقف تسلیم کریں؟۔
حوالہ نمبر۳:
کلمہ حق میں لکھنے والا ابو الہوس ذو الفقار رضوی بھگوڑا جو یوٹیوب پر مفتی حماد احمد صاحب مدظلہ العالی کو چیلنج دینے آیا اور جہالت کا یہ عالم کے فتاوی رضویہ کا خطبہ بھی صحیح نہ پڑھ سکا اور اعراب کی غلطی کرگیا اور جب منہ توڑ جواب ملا تو اب تک ایسے غائب ہے جیسے احمد رضاخان کے دل سے ایمان لکھتا ہے کہ :
’’وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسے بد طینت افراد بھی آئے جو خود کو مسلم و مومن کہلواتے لیکن حقیقت میں وہ اسلام سے عناد و عداوت رکھتے تھے۔لہٰذا انہوں نے اپنی زشت خوئی کے باعث دین اسلام (جوکہ امن کا پیامبر ہے)میں تفرقہ بازی ،فتنہ و فساد اور جنگ و جدال برپا کردیا جس کی وجہ سے اہل اسلام کئی فرقوں میں تقسیم ہوگئے‘‘۔
(کلمہ حق شمارہ نمبر ۴ :ص ۳۸)
آئے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ وہ بد طینت اور اسلام سے عناد و بغض رکھنے والا بد باطن شخص کون تھا مانا میاں بریلوی لکھتا ہے کہ :
’’مولانا احمد رضاخان صاحب پچاس سال مسلسل اسی جدوجہد میں منہمک رہے یہاں تک کہ دو مستقل مکتبہ فکر قائم ہوگئے بریلوی او ر دیوبندی‘‘۔
(سوانح اعلی حضرت بریلوی:ص۸)
معلوم ہو کہ اہل اسلام میں تفرقہ بازی کا یہ بیچ بریلی کے خان جی نے بویا اب رضوی بھگوڑے اگر تجھ میں غیرت ہے تو لگا یہی فتوے اپنے ابا حضور پر۔
ذوالفقار رضوی کے چیلنج کا جواب:
یہ بھگوڑا رافضی لکھتا ہے کہ :
فقیر سید ذو الفقار رضوی تمام دیوبند وہابی علماء کو چیلنج کرتا ہے تمہارے بزرگوں کی کفریہ عبارات تمہارے بزرگوں سے ہی کفریہ ثابت کی جائیں گی آئیں اور حق سے آگاہی حاصل کریں چاہے مناظرے کی صورت میں ہو یا کسی اور ذریعہ سے‘‘۔ (کلمہ حق شمارہ ۴:ص ۴۲)
بھگوڑے رضوی ہمیں تیرا یہ چلنج قبول ہے مگر اس شرط پر کہ ہم بھی تیرے دجال اعظم احمد رضاخان کو اسی کے اصول اور فتاوی اور دیگر بریلوی علماء کے فتاوی کی روشنی میں کافر،حرامی ہونا ثابت کریں گے اور پہلے اس اصول پر بات ہوگی، اور مناظرے سے پہلے تجھے ہمیں اپنی عبارت دانی کا امتحان دینا ہوگا کہ کیونکہ یوٹیوب پر تونے فتاوی رضویہ کے خطبہ کی عبارت غلط پڑھی تھی اور آج تک اپنی اس جہالت کا جواب نہ دے سکا اس کے بعد تجھ سے کوئی بات ہوگی اب فیصلہ تیرے ہاتھ میں ہے خواہ مناظرے کی صورت میں یا کسی اور صورت میں ہم تیرا انتظار کریں گے۔
حوالہ نمبر۴:
مولوی کاشف اقبال رضاخانی لکھتا ہے کہ :
جہاں تک سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ العزیز کے ایمان کی بات ہے تو وہ تمہیں ہم سے الجھنا نہیں چاہئے بلکہ تمہیں اپنے اکابر مثلا اشرفعلی تھانوی وغیرہ سے مناظرہ مجادلہ کرنا چاہئے جو سیدی اعلی حضرت بریلوی کو ایمان و اسلام اور عشق رسول ﷺ کی سند دئے ہوئے ہیں ۔۔۔تمہارا کفر کا فتوی تمہارے اکابر دیوبند پر لگتا ہے اس لئے کہ اگر اعلی حضرت بریلوی مسلمان نہیں تھے تو ان کو مسلمان اور عاشق رسول اور ان کو اپنا امام بنانے کے خواہش مند سب دیوبندی اکابر کافر ہوئے ا س لئے کہ من شک فی کفرہ و عذابہ فقد کفر فقہ میں مرقوم ہے ‘‘۔(کلمہ حق شمارہ نمبر ۴ :ص ۸۵،۸۶)
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر رضاخانی صرف اسی اصول کو تسلیم کرلیں کہ اگر دوسرے فرقے کے بڑوں نے پہلے فرقے کے لوگوں کو مسلمان کہا ہو تو اس کو مسلمان ہی تسلیم کیا جائے گا تو ہم سمجھتے ہیں کہ دیوبند بریلوی
اختلا ف ہمیشہ کیلئے ختم ہوسکتا ہے ۔بہر حال کاشف رضااگر اصول یہی ہے تو کب جرات کرے گا اور کب فتوی لگاےئے گا :
میاں شیر محمد شرقپوری صاحب،مولانا عبد الباری فرنگی محلی ،پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی، مولانا معین الدین اجمیری،مولانا کرم دین دبیر صاحب،کرمانوالہ،پیر جماعت علی شاہ ، خواجہ غلام فرید،حاجی امدا د اللہ صاحب ،قمر الد ین سیالوی،دیدار علی شاہ پر کفر کے فتوے جو اہلسنت اکابرین کو کافر نہیں کہتے ۔ہم تیرے فتوے کے انتظار میں ہیں۔
حوالہ نمبر ۵:
غلام مرتضی ساقی لکھتا ہے کہ :
اگر مقلدین اہلسنت سے خارج ہیں تو انہیں سنی کہنے والے وہابی بھی مردود ہونے چاہئیں‘‘۔(کلمہ حق شمارہ نمبر ۸:ص ۲۲)
تو ساقی صاحب اگر اصول یہی ہے تو کیا خیال ہے اگر علمائے دیوبند کافر ہیں اور اہلسنت سے خارج ہیں تو انہیں مسلمان کہنے والے بریلوی اکابرین بھی مردود ہونے چاہئے یا نہیں ؟ میں جواب کا منتظر ہوں۔
حوالہ نمبر۶:
بریلوی علامہ ’’خرِ ‘‘رضا صاحب(احمد رضاخان کو ایسے نام بدلنے کا بہت شوق تھا )لکھتے ہیں کہ:
’’وہابیوں کے نام نہاد شیخ الاسلام ابن تیمیہ ‘‘۔(کلمہ حق شمارہ نمبر ۸ :ص ۸۴)
گویا ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کو شیخ الاسلام کہنا ’’وہابیت ‘‘ ہے مگر گولڑہ شریف کے پیر اور حنیف قریشی کے چراغ گولڑہ پیر نصیر الدین ان کو شیخ الاسلام مانتے ہیں(راہ و رسم منزلہا:ص ۱۱۰) اسی طرح ’’فتاوی شامی ‘‘ میں بھی ان کو شیخ الاسلام کہا گیاہے ۔تو کیا خیال ہے’’ خرِ رضا‘‘ ایک عدد فتوے کا گولہ ان علماء پر بھی نہ داغ دیا جائے تاکہ سب آپ کی انصاف پسندی پر واہ واہ کریں؟
حوالہ نمبر ۷:
میثم دجال نے لکھا کہ دیوبندیوں نے موسی علیہ السلام کیلئے ’’ناکام ‘‘ اور اور ’’فیل‘‘ ہونے کے الفاظ استعمال کئے اور یہ شدید گستاخی ہے (کلمہ حق شمارہ نمبر ۸:ص ۹۷) مگر اس دجال کا مناظر اعظم نظام الدین ملتانی لکھتا ہے کہ :
دوبارہ وہی بھیجا جاتا ہے جو پہلی دفعہ ناکامیاب رہے امتحان میں دوبارہ وہی لوگ بلائے جاتے ہیں جو فیل ہوں حضرت مسیح علیہ السلام پہلی آمد میں ناکامیاب رہے اور یہود کے ڈر کے مارے کام تبلیغ رسالت سرانجام نہ دے سکے اس لئے ان کا دوبارہ آنا تلافی مافات ہے ‘‘۔
(انوار شریعت :ص ۵۵:جلد دوم :سنی دارالااشاعت فیصل آباد)
یہاں نظام الدین ملتانی نے واضح طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیلئے ’’ناکام ‘‘ ،’’فیل‘‘ ہونے کے الفاظ استعمال کئے جواب دے میثم ایک آدھ صفحہ اپنے اس ڈیڈی پر بھی لکھے گا یا یہاں وہی پرانی منافقت؟
حوالہ نمبر ۸:
میثم دجال نے کلمہ حق میں اپنے شہزادے کا ایک فتوی دیا ہے کہ:
ایسوں(یعنی دیوبندیوں ) کا وعظ سننا ایسوں کی کتابیں پڑھنا بھی حرام ہے اور بچوں کو ان سے تعلیم دلوانا بھی حرام ہے‘‘۔
(کلمہ حق شمارہ نمبر ۷:ص ۹)
مگر میثم دجال کو دیوبندیوں کی کتابیں پڑھنے کا بڑا شوق ہے جواب دے میثم تجھے یہ حرام کام کرتے ہوئے حیاء نہیں آئی؟مگر میثم کہہ سکتا ہے کہ مجھے جب داڑھی مونڈھتے ہوئے حیاء نہیں آتی،دیوبندی مکتبوں سے کتابیں چوری کرتے ہوئے حیاء نہیں آتی، تو یہ کام کرتے ہوئے حیاء کیوں آئے ؟ویسے بھی ٹریفک پولیس میں لگنے کے بعد کون حرام حلال کو دیکھتا ہے ؟۔
اس فتوے میں یہ بھی لکھا گیا کہ وہابیوں کے پاس پڑھنا حرام ہے جبکہ میثم دجال کا جنید زماں لکھتا ہے کہ :
واقعی میرا حصول علم تمام وہابیہ سے ہے ‘‘۔(مقیاس حنفیت :ص ۱۶:مقیاس پبلیشرز)
اسی طرح مولانا کرم دین دبیر مرحوم کے متعلق کلمہ حق میں ہے کہ :
’’شیر اسلام ابو الفضل مولانا کرم الدین دبیر علیہ الرحمۃ‘‘۔(کلمہ حق شمارہ ۸:ص۹۴)
جبکہ یہ وہی کرم الدین دبیرمرحوم ہیں جنہوں نے حشمت علی رضوی کی مولانا منظو ر نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں درگت بننے کے بعد اپنے بیٹے حضرت مولانا قاضی مظہر حسین رحمۃ اللہ علیہ کو دیوبند پڑھنے بھیجا(فوز المقال:ج۴:ص۵۳۷)کیوں جی میثم دجال کیاتیرے ہاں ’’کار حرام‘‘ کرنے والے شیر اسلام کہلائے جاتے ہیں؟
حوالہ نمبر ۹:
مظہر اعلی حضرت حشمت علی رضوی کہتا ہے کہ:
’’حضور اکرم ﷺ اپنی ہر صفت ہر شان میں بے نظیر ہیں۔نماز قائم ہوچکی ہو امام نماز پڑھا رہا ہو دنیا جہاں کا کوئی شخص بھی اگر اس نماز میں شریک ہونا چاہے تو مقتدی بننے کے سوا کوئی چارہ نہیں لیکن حضور اکرم ﷺ اگر اس نماز میں شرکت فرمادیں تو حضور بھی امام ہونگے اور وہ امام سرکار دو عالم ﷺ کا مقتدی بن جائے گا۔وہ ایسی بلندسرکار ہے جہاں امام بھی پہنچ کر مقتدی ہوجاتے ہیں‘‘۔
(کلمہ حق شمارہ نمبر ۷ص ۲۸)
مگر نصیر الدین سیالوی اپنے اعلی حضرت کے ملفوظات والے واقعہ کے متعلق لکھتا ہے کہ :
’’کوئی اس سے پوچھے کیا وہ معاذ اللہ کہتے ان کو پہلے تو پتہ نہیں تھا کہ حضور علیہ السلام جنازے میں شامل ہیں بعد میں جب پتہ چلا تو اللہ کا شکر ادا کیا کہ سرکار ﷺ نے میرے پیچھے نماز پڑھی اور مجھے اعزاز بخشا تو یہ جائے شکر اور حمد تھی نہ کہ جزع و فزع اور رونے دھونے اور توبہ و استغفار کی ‘‘۔
(عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ :ص ۳۲۴)
اب ان کے بڑے ابا جی کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کی موجودگی میں کسی کو امام بننے کی جرات نہیں وہ ایسی بلند سرکار ہے کہ جہاں امام بھی مقتدی بن جاتا ہے ، مگر اشرف سیالوی کا لڑکا کہتا ہے کہ احمد رضاخان نبی ﷺ کے امام بن گئے تھا معاذ اللہ اور ہمیں اس پر فخر ہے گویا بریلویوں کے نزدیک احمد رضاخان نبی کریم ﷺ سے بھی معاذ اللہ بلند سرکار ہیں کہ جہاں نبی ﷺ جو امام الانبیاء ہیں آکر مقتدی بن جاتے ہیں ۔ رضاخانیو! ہے غیرت ایمانی تو لگاو اپنے احمد رضا اور اس سیالوی پر کفر کا فتوی اورلگاو فتوی اس کتاب کی تائید کرنے والے اسے پڑھنے کی تلقین کرنے والے اسے چھاپنے والوں پر ۔
حوالہ نمبر ۱۰:
حشمت علی کہتا ہے کہ :
آپ حضور ﷺ کو اپنا جیسا بشر بتلاتے ہیں اور یہ بھی آپ کا کفر ہے ‘‘۔
(ایضا :ص ۲۹)
مگر بریلوی استاذ المناظرین ٹیڑھی گردن والا اشرف سیالوی لکھتا ہے کہ:
’’اے کفار تمہارا یہ مطالبہ بے جاہے کہ اللہ تعالی کو ہماری ہدایت اور اصلاح مقصود ہوتی تو کسی فرشتے کو ہمارے پاس نبی اور رسول بنا کر بھیجتا ۔ضروری تھا کہ ایک ہمارے جیسے بشر اور انسان کو ہمارے لئے نبی اور رسول بنایا جاتا کیونکہ نبی اور امت میں مناسبت ضروی ہوتی ہے ‘‘۔ (التحقیقات:ص ۹۱)
ہے کسی کلمہ حق میں لکھنے والے دجال میں اتنی ہمت کہ وہ اشرف سیالوی کو کفر کے گھاٹ اتارے؟۔
حوالہ نمبر ۱۱:
مزید کہتا ہے کہ:
’’اے حضرت عیسی آپ کی مسیحائی کیا تھا ۔آپ تو صرف مردوں کو زندہ کرتے تھے ذرا ہمارے گنگوہی کی مسیحائی کو دیکھئے کہ مردوں کو زندہ کیا اور زندوں کو مرنے نہ دیا (اور خود مرکر مٹی میں مل گئے )کہئے یہ حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں گالی ہوئی یا نہیں؟‘‘۔(کلمہ حق شمارہ نمبر ۷:ص ۳۴)
اب ذرا ایک نظر یہاں بھی ہوجائے :
عیسیٰ کے معجزو ں نے مردے جلا دئے ہیں
میرے آقا کے معجزوں نے کئی عیسیٰ بنادئے ہیں
(فوز المقال:۴:ص۳۶۴)
میثم دجال اور اس کی انگلی پکڑ کر چلنے والے جاہل دجال رضاخانی بتائیں کیا یہ گستاخی نہیں؟
حوالہ نمبر۱۲:
سید احمد قادری رضوی رضاخانی آف حزب الاحناف لکھتا ہے کہ :
اس کو (یعنی امکان کذب کو)ممکن بالذات مانا اس کا صدور ذات باری عز اسمہ سے محال نہ جانا تو پھر جملہ عیوب و نقائص کا صدو ربھی ممکن مانا‘‘۔
(کلمہ حق شمارہ نمبر ۷ص ۵۱)
اب ذرا دوسری طرح بریلوی بطل حریت فضل حق خیر آبادی کا عقیدہ بھی ملاحظہ فرمالیں:
اللہ تعالی کی خبر میں کذب ممتنع بالغیر ہے اور ممتنع بالغیر ہوناامکان ذاتی کے منافی نہیں‘‘۔(شفاعت مصطفی ﷺ:ص ۲۵۶)
یہاں فضل حق خیر آبادی نے کذب کو ممکن جانا تو بقول سید احمد قادری کے جملہ قبائح و عیوب کا خداتعالی سے صدور ممکن مانا اب علمائے دیوبند پر بھونکنے والی زبانیں پہلے اپنے گھر کا گند صاف کریں۔
حوالہ نمبر۱۳
فیض احمد اویسی لکھتا ہے کہ :
اب جو لوگ عبد النبی عبد الرسول عبد المصطفی کے ناموں پر شرک کا فتوی دیتے ہیں وہ درحقیقت فاروق اعظمؓ کو اور صدیق اکبرؓ کو مشرک کہہ کر گستاخ صحابہ بنتے ہیں‘‘۔(کلمہ حق شمارہ نمبر ۷:ص۷۲)
جبکہ ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ:
واما ما اشتھر من التسمیۃ بعبد النبی ،فظاھرہ کفر الا ان اراد بالعبد المملوک۔(شرح فقہ اکبر:ص ۵۱۴،بیروت)
اور یہ جو عبد النبی نام رکھنا مشہور ہوگیا تو اس کا ظاہر کفر ہے الا یہ کہ عبد سے مراد غلام لیا جائے۔
دیکھئے قارئین کرام عبد النبی نام رکھنے پر کفر کا فتوی کون دے رہا ہے؟ اور اویسی کے فتوے کی زد میں کون آرہا ہے؟ ۔
حوالہ نمبر ۱۴:
کلمہ حق میں ’’ڈاک ۔۔ٹرررر (گستاخ کون میں قریشی کے چیلوں نے طالب الرحمن کو اسی انداز میں پکارا)محمد فاروق رضاخانی لکھتا ہے کہ :
شائد بہت سے لوگ ناواقفی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہوں کہ میلاد و قیام عرس و قوالی فاتحہ تیجہ دسواں بیسواں چالیسواں برسی وغیرہ ۔۔۔
(کلمہ حق شمارہ نمبر ۳ ص ۷۰)
یہاں ’’وغیرہ ‘‘ کی جگہ ’’وغیرہم‘‘ آنا چاہئے تھا آگے لکھتا ہے کہ ’’میلاد و قیام وغیرہم‘‘ :ص ۷۱ ،حالانکہ یہ تثنیہ ہے یہاں وغیرہما آنا چاہئے تھا اسی طرح جاہلوں کا آئی جی میثم دجال لکھتا ہے کہ ’’وہابی ،مرزائی ،دیوبندی ،شیعہ وغیرہ‘‘(کلمہ حق شمارہ نمبر ۳ :اداریہ)اسی طرح یہ دجال لکھتا ہے کہ ’’مولوی حماد دیوبندی و مولوی الیاس گھمن دیوبندی و مولوی رب نواز حنفی دیوبندی وغیرہ ‘‘ ۔(ایضا :ص ۳۱)
جبکہ حسن علی رضوی میلسی لکھتا ہے کہ :
’’یوسف رحمانی صرف دو مولویوں کیلئے وغیرھم بصیغئی جمع لکھا حالانکہ ایک مبتدی طالب علم بھی جانتا ہے کہ دو کیلئے ’’ہما‘‘استعمال ہوتا ہے (وغیرہما)نہ کہ ’’ہم‘‘ (وغیرھم) یعنی اس جاہل دیوبندی مناظر اسلام کو تثنیہ اور جمع کا فرق بھی معلوم نہیں اور اس جہالت و حماقت کے بل بوتے پر تکفیری افسانہ کا جواب لکھنے بیٹھ گیا‘‘۔
(برق آسمانی :ص ۱۹)
تو میثم دجال اور دو نمبر ڈاکٹر تم دونوں جاہلوں کو جمع اور تثنیہ کا فرق معلوم نہیں او اس جہالت کے بل بوتے پر علمائے دیوبند پر اعتراض کرنے بیٹھ گئے ہو ۔۔ڈوب مرو بے شرمو۔۔(حسن علی رضوی نے خود اپنی کتابوں میں اس جہالت کا کتنی بار اظہار کیا ہے اس کی تفصیل پھر کبھی)۔
حوالہ نمبر ۱۵:
میثم خبیث نے کلمہ حق شمارہ نمبر ۳ میں جگہ جگہ مناظر اسلام حضرت مولانا مفتی حماد احمد صاحب کو ’’احمدی‘‘ لکھا اور ’’احمدی ‘‘ کے متعلق میثم دجال کا گرو گھنٹال احمد رضاخان لکھتا ہے کہ :
’’زاہد مسجد احمدی پر درود‘‘۔(حدائق بخشش:ح۲:ص۳۶)
تو میثم تیرا یہ دجال رضاخان ’’احمدی‘‘ کے مسجدکے زاہد پر درود بھیجتا ہے اور تو آج ان پر بکواس کرتا ہے ۔شرم کر۔
حوالہ نمبر ۱۶:
مولوی غلام مرتضی رضاخانی لکھتا ہے کہ :
’’حضرت شیخ جیلانی رحمہ اللہ فقہ حنبلی کے پیروکار تھے‘‘۔(کلمہ حق :شمارہ ۴:ص ۲۸)
جب شیخ جیلانی ؒ فقہ حنبلی کے پیروکار تھے تو عبادات اور تمام افعال فقہ حنبلی کے مطابق کرتے ہونگے جبکہ بریلوی فقہ حنفی کے مطابق اپنی عبادات سر انجام دیتے ہیں او ر مولوی احمد رضاخان شیخ کے متعلق لکھتا ہے کہ :
ٍ’’میرے ارشاد کے خلاف بتانا تمہارے دین کیلئے زہر قاتل اور تمہاری دنیا و عقبی دونوں کی بربادی ہے‘‘۔
(فتاوی رضویہ:ج۳:ص۵۴۵:برکاتی پبلشرز)
اب جو یہ لعنتی بریلوی احمدرضاخان کے ماننے والے ہیں اور محض لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے خود کو حنفی کہتے ہیں ان سب کی دنیا و آخرت دونوں برباد ہیں شیخ جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی مخالفت کرکے۔
حوالہ نمبر ۱۶:
میثم دجال لکھتا ہے کہ :
’’اگر انصاف نام کی کوئی چیز موجود ہے تو مجھے بتائیں کہ کیا آج ہمارے اوپر باطل ،فاسق و فاجر حکمران موجودنہیں ؟ہیں اور ضرور ہیں تو بتائے پھریہ مجرمانہ خاموشی زبانی کلامی چند جملے ان کی مذمت میں کہنے سے اسوہ حسین پر عمل ہوتا ہے ؟‘‘۔(کلمہ حق شمارہ ۴:ص۳،۴)
میثم دوسروں کو تو فاسق فاجرکہہ کرکے واویلا کررہا ہے مگر دجال تونے کیا اپنی شکل کبھی آئنے میں دیکھی ہے؟ اور اپنا چھلے ہوئے آلو جیسا منہ دیکھا ہے ؟ہم یہاں کلمہ حق کی مجلس تحقیق سے سوال کرتے ہیں کہ کیا تم لوگوں میں انصا ف نام کی کوئی چیز ہے؟جو ایک فاجر فاسق کو اپنا مدیر بنایا ہوا ؟کیا اس کے فسق پر مجرمانہ خاموشی اسوہ حسینیؓ سے کھلی ہوئی بغاوت نہیں؟
حوالہ نمبر ۱۷:
رئیس التحریف فیض احمد اویسی لکھتا ہے کہ :
’’اب جو لوگ حضور ﷺ کی نظر کو اپنے دیکھنے پر قیاس کرتے ہیں حضور کو دیوار کے پیچھے نظر نہیں آتا وہ ام المومنین سیدہ عائشہؓ اور صحابی حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے نظریے کے خلاف ہیں اور گستاخ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم ہوکر بے دین ہیں‘‘۔ (کلمہ حق :۷:ص ۷۹)
جبکہ شیخ عبد الحق محدیث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ:
من بشرم نمی دانم کہ د پس ایں دیوار چیست یعنی بے نانیدن حق سبحانہ‘‘۔ (اشعۃ للمعات :ج۱:ص ۳۵۶َنوریہ رضویہ )’’میں بشر ہوں نہیں جانتا کہ اس دیوار کے پیچھے کیا ہے یعنی بے بتلائے حق سبحانہ کے‘‘۔
اب بریلوی جواب دیں کہ فیض احمد اویسی کا یہ فتوی کس پر جاکر لگا؟۔
حوالہ نمبر۱۸:
مولوی فیضی لکھتا ہے کہ :
’’پس مرد اور عورتیں گھروں کی چھت پر چڑھ گئے غلام اور خادم راستوں میں پھیل گئے اور بآواز بلند پکارتے تھے یا محمد یا رسول اللہ یا محمد یا رسول اللہ ۔ (ﷺ)‘‘۔(کلمہ حق :شمارہ نمبر ۷:ص ۷۰)
جبکہ فیض احمد اویسی کا ڈیڈی احمد یار گجراتی لکھتا ہے کہ :
’’ان کو بشر یا انسان کہہ کر پکارنا یا حضور ﷺ کو یا محمد یا کہ اے ابراہیم کے باپ یا اے بھائی باوا وغیرہ برابری کے الفاظ سے یاد کرنا حرام ہے ‘‘۔
(جاء الحق ،ص۱۸۰۔ضیاء القرآن پبلیشرز )
احمد یا رگجراتی نے ’’یا محمد‘‘ کہنے کو گستاخی اور حرام کام کہا جبکہ اویسی کہتا ہے کہ مدینہ میں سب مسلمان حضور ﷺ کو یا محمد سے یاد کررہے تھے گویا یہ سب حضور ﷺ کی برابری اور حرام کام کر رہے تھے معاذ اللہ۔
حوالہ نمبر ۱۹:
جاہل وسیم رضوی لکھتاہے کہ :
’’اس عبار ت میں (الموت الاحمر)کو امام اہلسنت احمد رضاخان ۔۔۔ کی طرف منسوب کیا اور بتایا یہ ان کا رسالہ ہے حالانکہ یہ امام اہلسنت ۔۔انکا رسالہ نہیں بلکہ ان جہلاء دیوبندیوں کی جہالت ہے کہ الموت الاحمر کو اعلی حضر ت کی طرف منسوب کیا جبکہ یہ رسالہ شہزادہ امام اہلسنت مولانا مصطفی رضاخان (علیہ لعنۃ الرحمن ۔۔از ناقل) کا ہے‘‘ ۔(کلمہ حق شمارہ۸:ص۷۳)
وسیم رضوی کی خباثتوں کا جواب تو خیر ایک مستقل مضمون میں آرہا ہے مگر اس اقتباس سے معلوم ہوا کہ بقول رضاخانیوں کہ کسی کی کتاب کسی کی طرف منسوب کردینا ’’جہالت ‘‘ہے اور اسی ’’جہالت ‘‘ کا ارتکاب میثم رضاخانی نے دو بار کیا اس نے اپنے رسالہ کلمہ حق شمارہ ۲:ص۶۰ پر ’’تذکیر الاخوا ن‘‘ کو شاہ اسمعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب کہا ،اسی طرح طرح شمارہ ۷:ص ۷۸ پر لکھا کہ ’’اسمعیل دہلوی۔۔۔اپنی کتاب ’’تذکیر الاخوان ‘‘ میں ۔۔اب رضاخانیوں ہی کی زبان میں کہ اس جاہل کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ تذکیر الاخوان شاہ اسمعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف نہیں بلکہ مولانا سلطان رحمۃ اللہ علیہ کی ہے یہ میثم رضاخانی کی جہالت ہے کہ وہ اس کتاب کو شاہ صاحب کی کتاب بتا رہا ہے۔
حوالہ نمبر ۲۰:
میثم نے کلمہ حق شمارہ ۷ کہ صفحہ ۳ پر ایک فتوی دیا :
’’جماعت اسلامی کے بارے میں شہزادہ اعلی حضرت حضور مفتی اعظم ہند کا نایاب فتوی‘‘
یہ فتوی کل ۸ صفحات پر مشتمل ہے اور صفحہ ۴ پر ہے کہ مودودیوں سے سلام کلام ان سے مجالست ان کی تعظیم و توقیر ان سے خندہ پیشانی سے پیش اناان سے نرمی کرنا حرام ہے اور دین اسلام کا انہدام ہے (ملخصا :ص ۴)صفحہ ۸ پر حضور ﷺ کی حدیث کے حوالے سے ان کے پاس بیٹھنے سے بھی منع کیا گیا۔مگر تنظیم اہلسنت کراچی کے کذاب زمانہ مولوی محمد طفیل رضوی نے ایک کتاب جو جھوٹ کا پلندہ ہے ’’آئینہ کیوں نہ دوں؟‘‘کے نام سے لکھی ا س کے صفحہ ۱۷ پر ’’اساس راولپنڈی ۲۷ ستمبر ۲۰۰۳‘‘ کے حوالے سے مولوی شاہ احمد نورانی رضاخانی کی تصویریں دی ہوئی ہیں کہ وہ مودودی کا سو سالہ یوم ولادت منارہا ہے اور قاضی حسین کے پہلو میں بیٹھا ہوا ہے کیوں میثم دجال کیا مودودی کا ’’یوم ولادت ‘‘ منانا جائز ہے ؟اور تیرے باپ نے جو یہ مودودی کایوم ولادت منایا ان کے پا س بیٹھا ان سے گپے لگائیں ان کی تعظیم کی تو تجھ میں اتنی جرات ہے کہ اپنے ہی باپ کے دئے ہوئے فتووں کا ایک ہار بناکر نورانی کی قبر پر چڑھا دے ؟یا یہاں پھر وہی منافقت؟
حوالہ نمبر ۲۱:
میثم دجال نے شمارہ ۸:ص ۹۲ پر محمد ثاقب رضا قادری کو’’اہلسنت کا نوجوان مجاہد‘‘ لکھا اس حلوہ خوری کے مجاہد نے ایک کتاب رامپوری کی شائع کی جس میں وہ لکھتا ہے کہ:
’’میں محب گرامی جناب محمد میثم عباس رضوی صاحب ۔۔کا نہایت مشکور ہوں جنہوں نے یہ کتاب مجھے عنایت فرمائی‘‘۔
(دافع الاوہام فی محفل خیر الانام :ص ۲۴:مکتبہ اعلی حضرت)
اسی کتاب میں رامپوری صاحب لکھتے ہیں:
’’خدا تعالی ہر وقت حاضر ہے۔۔۔خدا تعالی کے حاضر ناظر ہونے میں‘‘۔ (ایضا:ص ۵۲)
حالانکہ میثم کا دجال اعظم رضاخان لکھتا ہے کہ ’’حاضر ناظر کا لفظ بہت برے معنی کا احتما ل رکھتا ہے اللہ کی شان میں استعمال نہیں کرنا چاہئے ‘‘ (ملخصا:کفریہ کلمات کے بارے میں سوال و جواب :ص۵۷۲ )کیوں میثم جس کتاب میں تیرے باپ کے فتووں کے الٹ عقائد ہوں وہ کتابیں تجھے چھپائی کیلئے دیتے ہوئے اوراپنے باپ کی نمک حرامی کرتے ہوئے حیاء نہیں آتی؟
حوالہ نمبر۲۲:
مولوی حسن علی رضوی لکھتا ہے کہ :
’’ناشر نے اپنے عرض حال میں کیا لکھا ہے علماء اہلسنت والجماعت یہ والجماعت کیا ہے کس قاعدہ کس قرینہ پر ہے؟ یا تو اہلسنت وجماعت ہوتا یا اہل السنت والجماعت ہوتا مگر چونکہ ان کا اہلسنت وجماعت سے کوئی تعلق نہیں لہٰذ ا اہلسنت وجماعت لکھنے میں بھی بھٹک جاتے ہیں ‘‘۔
(مناظرہ بریلی:ص۱۷:مکتبہ سعیدیہ فیصل آباد)
(۱) گویا ’’اہلسنت والجماعت‘‘ لکھنا ایک تو اصول و قواعد کے خلاف ہے
(۲) دوسرا ایسا لکھنے والا ’’اہل السنۃ والجماعۃ ‘‘ سے خارج ہے ۔اب ذرا دیکھئے کہ یہ زبردست فتوی کس کس کے گلے میں فٹ ہوتا :
کلمہ حق شمارہ ۷ میں مبلغ حزب الاحناف قاضی علی محمد لعنتی کی ایک روئیداد دی گئی ہے جس نے ایک جھوٹی روئداد اپنی طرف سے گھڑ کر یہ شور کیا کہ علمائے دیوبند بد نام زمانہ بھگوڑے حشمت علی رضوی دجال سے مناظرہ ہار گئے اس میں یہ دجال مرتب لکھتا ہے کہ :
’’اہل سنت ولجماعت‘‘۔(کلمہ حق :ص۳۴)
ایک اور مقام پر لکھتا ہے :’’اہل سنت والجماعت ‘‘(کلمہ حق:ص۳۰)اسی طرح رضاخانی مفتی اعظم لکھتا ہے کہ :
’’اہل سنت والجماعت‘‘۔(کلمہ حق شمارہ :۷:ص ۴۷)
کہئے میثم جی اسے کہتے ہیں خدائی پھٹکار دونوں دجالوں نے جیسے ہی اللہ کے کامل ولیوں پر بھونکنا شروع کیا کہ یہ اہل السنۃ والجماعۃ سے خارج ہیں فورا ان پر انہی کے مولوی کی توسط سے پھٹکار آگئی کہ اہل سنت وجماعت سے تو تم دونوں بد بختوں کا کوئی تعلق نہیں۔میثم کو دوسروں کا باپ بننے کا تو بڑا شوق ہے اب جواب دے کہ اپنے ان دونوں باپوں میں سے وہ کس کی مان کر کس کا بیٹا بننا پسند کرے گا؟۔
حوالہ نمبر۲۳:
مولوی فیض احمد اویسی لکھتا ہے کہ :
’’اب جو لوگ کہتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ رسول کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا رسول کی دعا بھی رد ہوجاتی ہے نامنظور ہوجاتی ہے وہ امی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے منکر اور گستاخ ام المومنین ہیں اور نظریہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے منکر ہوکر بے دین ہوئے ‘‘۔ (کلمہ حق شمارہ ۷:ص ۷۷)
گویا جو یہ عقیدہ رکھے کہ حضور ﷺ کی دعا بھی رد یا قبول نہیں ہوسکتی یانا منظور ہوسکتی ہے وہ:
(۱) صحابہ کے منکر۔
(۲) امام المومنین رضی اللہ تعالی عنہا کے منکراور گستاخ ہے ۔
(۳) بے دین ہے ۔
ہم کہتے ہیں شاباش فیضی صاحب شاباش تھوڑا انتظار کیجئے دیکھئے ہم کیسے آپ کے ان فتووں کا ایک خوبصورت سا ہار بنا کر آپ کے صدر الافاضل کی قبر پر ڈال کر آپ ہی کی طرف سے جاری کردہ بے دینی اور گستاخی کایہ سرٹیفکیٹ ان کو عنایت کرتے ہیں۔یہ بے دین نعیم الدین مراد آبادی لکھتا ہے کہ:
’’حدیث شریف میں ہے کہ ایک روز سید عالم ﷺ نے مسجد بنی معاویہ میں دو رکعت نما ز ادا فرمائی اور اس کے بعد طویل دعا کی پھر صحابہ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا میں نے اپنے رب سے تین سوال کئے ان میں سے صرف دو قبول فرمائے گئے ایک سوال تو یہ تھا کہ میری امت کو قحط عام سے ہلاک نہ فرمائے یہ قبول ہوا ایک یہ تھاکہ انہیں غر ق سے عذاب نہ فرمائے یہ بھی قبول ہوا تیسر ا سوال یہ تھا کہ ان میں باہم جنگ و جدال نہ ہو یہ قبول نہیں ہوا ‘‘۔
(تفسیر خزائن العرفان :سورہ انعام :۵۶:حاشیہ ۸:مطبوعہ دارالعلوم امجدیہ)
فیضی کہتا ہے کہ یہ لکھنا کہنا کہ حضور ﷺ کی دعا نا منظور اور رد ہوجاتی ہے بے دینی ہے جبکہ نعیم الدین مراد آبادی کہتا ہے کہ حضور ﷺ کی ایک دعابھی قبول نہ ہوئی ،یاد رہے کہ لغت میں نامنظور ،رد قبول نہ ہونا باہم مترادف الفاظ ہیں۔
حوالہ نمبر ۲۴:
کلمہ حق شمارہ ۴ میں رضاخان کا ایک انڈہ اختر رضاخان دجال لکھتا ہے کہ:
’’شرک یہ ہے کہ جو خدا کے ساتھ خاص ہو اسے غیر خدا کیلئے ثابت کیا جائے ‘‘۔ (کلمہ حق :ص ۱۸)
اور دوسری طرف میثم رضاخانی کے مناظر اسلام شیر اہلسنت مولانا کرم دین دبیر مرحوم لکھتے ہیں کہ:
’’یہ مسئلہ بھی مسلمہ ہے کہ علم ما کان و مایکون خاصہ ذات باری تعالی ہے ‘‘۔
(آفتاب ہدایت :ص ۱۷۰)
اب دجال اعظم مجسم شیطان رضاخان بریلی سے لیکر میثم تک جتنے شیطان کے انڈے ،دجال کے بندے ، عقیدے میں گندے ہیں جو نبی کریم ﷺ کیلئے علم ما کان و ما یکون کا عقیدہ رکھتے ہیں سب مشرک اور نار جہنم کے مستحق ۔
(جاری ہے)
کلمہ حق میں بدترین خیانت اور بریلوی فتوےمیثم رضوی نے کلمہ حق کے شمارہ نمبر ۷ میں صفحہ نمبر ۶۳سے ۸۰ تک مولوی فیض احمد اویسی کا رسالہ ’’نظریات صحابہ ‘‘ دیا مگر اس مضمون میں ایک بدترین خیانت کی وہ یہ کہ صفحہ نمبر ۷۰ پر ’’دعا بعد نماز جنازہ‘‘ کے بعد فیض احمد اویسی نے میلاد کے فضائل پر چند جھوٹی روایات نقل کی تھیں جن کو میثم نے اپنی یہودیانہ صفات سے مجبور ہوکر بنا ڈکار لئے ہضم کرلیا اور کلمہ حق میں نہیں دیا اس کی وجہ کیا ہے وہ ہم آپ کو آگے بتائیں گے پہلے اصل رسالے سے تحریف کی گئی مکمل تحریر پڑھ لیں ۔مولوی فیض احمد اویسی لکھتا ہے کہ :
مولانادوست محمد قندہاری نقشبندی
’’(۸)۔قال ابو بکر الصدیقؓ من انفق درھما علی قراءۃ مولد النبی ﷺ کان رفیقی فی الجنۃ ۔(نعمت کبری امام ابن حجر مکی ص ۷)
ترجمہ:حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ’’جس (مسلمان)نے ایک درہم حضور ﷺ کے میلاد پڑھانے پر خرچ کیا وہ بہشت میں میرا رفیق ہوگا ‘‘۔
۹۔و قال عمر رضی اللہ تعالی عنہ من عظم مولد النبی ﷺ فقد احیاالاسلام ۔
(نعمت کبری امام ابن حجر مکی ص ۷)
ترجمہ:حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا جس نے حضور کا میلاد عظمت اور تعظیم سے منایا تو اس نے اسلام کو زندہ کیا ‘‘۔
۱۰۔و قال عثمان رضی اللہ تعالی عنہ من انفق درھما علی قراۃ مولد النبی ﷺ فکانما شھد غزوۃ بدر و حنین ۔ (نعمت کبری امام ابن حجر مکی،ص ۷،۸)
ترجمہ:حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا جس (ایماندار)نے حضور ﷺ کے میلاد شریف پڑھانے پر ایک درہم خرچ کیا ،گویا کہ وہ جنگ بدر و حنین میں حاضر ہوا ۔
۱۱۔و قال علی رضی اللہ عنہ و کرم اللہ وجھہ من عظم مولد النبی ﷺ و کان سببا لقرائتہ لا یخرج من الدنیا الا بالایمان و یدخل الجنۃ بغیر حساب ۔
(نعمۃ کبری علی العالم فی مولد سید ولد آدم لامام ابن حجر مکی ص ۷۔۸)
ترجمہ:حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا جس نے میلاد مصطفی ﷺ کی تعظیم کی اور میلاد پڑھانے کا سبب بنا اس کا خاتمہ ایمان پر ہوگا اور وہ بلا حساب بہشت میں جائیگا۔
لہٰذا جو لوگ حضور ﷺ کے میلاد کی محافل سے چڑتے ہیں اور میلاد کے جلسہ اور جلوس منعقد نہیں کرتے بلکہ ناجائز و حرام قرار دیتے ہیں تو وہ خلفاء اربعہ اور اہل مدینہ صحابہ کے منکر اور گستاخ ہیں‘‘۔
(نظریات صحابہ :ص ۱۵۔۱۶۔مطبوعہ قطب مدینہ پبلشرز کراچی)
میثم دجال نے اس طویل اقتباس کو نقل نہیں کیا اور خیانت و تحریف سے کام لیا اس کی ضرورت کیوں پیش آئی اسے بھی ملاحظہ فرمالیں:
اویسی بریلوی فتووں کی زد میں
مفتی صابر حسین رضاخانی لکھتا ہے کہ :
’’کچھ واعظین میلاد النبی ﷺ کی محافل میں صحابہ کرام کی طرف منسوب کرکے میلاد شریف کے فضائل و مناقب پر ایسی روایات بیان کرتے ہیں جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔بلکہ وہ غیر مستند اور من گھڑٹ قسم کی روایات ہیں۔خاص طور پر خلفاء راشدین سے منسوب ایسی احادیث کو بیان کیا جاتا ہے جن کے غیر مستند ہونے پر محدثین کرام کا اتفاق ہے ‘‘۔
(عید میلاد النبی ﷺ اور چند اصلاح طلب پہلو:ص ۵۹)
مولوی عبد الحکیم شرف قادری رضاخانی ان روایات کے متعلق کیا کہتا ہے وہ بھی ملاحظہ فرمالیں:
’’اس سے نتیجہ نکالنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی کہ یہ ایک جعلی کتاب ہے جو علامہ ابن حجر مکی کی طرف منسوب کردی گئی ہے علامہ سید محمد عابدین شامی (صاحب رد المحتار)کے بھتیجے علامہ سید احمدعابدین شامی نے اصل ’’نعمۃ کبری‘‘ کی شرح’’نثر الدرر علی مولد ابن حجر‘‘لکھی جس کی متعدد اقتباسات علامہ نبہانی نے جواہر البحار جلد ۳ص۳۳۷سے ۳۷۴تک نقل کئے ہیں۔اس میں بھی خلفاء راشدین رضی اللہ تعالی عنہم کے مذکورہ بالا اقوال کا کوئی ذکر نہیں ہے‘‘۔
(عید میلاد النبی ﷺ اور چند اصلاح طلب پہلو:ص۶۴)
مزید لکھتے ہیں کہ:
’’امام احمد رضا بریلوی ۔۔۔نے مجالس وغیرہ میں موضوع احادیث پڑھی جانے سے متعلق اپنے ایک فتوی میں تحریر فرمایا کہ ۔۔۔بے اصل باطل روایات کا پڑھنا سننا حرام و گناہ ہے ۔۔الخ ‘‘(فتاوی رضویہ جدیدج۲۳ص۷۳۲،۷۳۳)
درج بالا قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہورہی ہے کہ محافل میلاد ہو یا محافل درس قرآن و حدیث ان میں موضو ع احادیث کا بیان کرنا سخت حرام اور باعث گناہ ہے ۔۔۔اس سے بچنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان محافل و مجالس میں بیان کیلئے صرف متبحر اور مستند علماء کرام کی خدمات لی جائیں ۔۔۔کسی جھوٹی روایت کا سہارا لینا کم علمی کی دلیل ہے ‘‘۔
(عید میلاد النبی ﷺ اور چند اصلاح طلب پہلو:ص۶۷)
احمد رضاخان کا ایک اور فتوی نقل کرتے ہیں کہ:
’’روایات موضوعہ پڑھنا بھی حرام سننا بھی حرام ایسی مجالس سے اللہ عز جل اور حضور اقدس ﷺ کمال ناراض ہیں۔ایسی مجالس اور ان کا پڑھنے والا اور ا س حال سے آگاہی پاکر بھی حاضر ہونے والا سب مستحق غضب الٰہی ہیں جتنے حاضرین سب وبال شدید میں جداجدا گرفتارہیں۔۔۔ جس قدر روایات موضوعہ جس قدر کلمات نامشروعہ وہ قاری جاہل جری پڑھے گا ہر روایت ہر کلمہ پر یہ حساب وبال عذاب تازہ ہوتا مثلا فرض کیجئے کہ ایک سو کلمات مردودہ اس مجلس میں اس نے پڑھے تو ان حاضرین میں ہر ایک پر سو سو گناہ اور اس قار ی علم و دین سے عاری پر ایک لاکھ ایک سو گناہ اور باقی پر دو لاکھ دو سو گناہ ‘‘۔(عید میلاد النبی ﷺ اور چند اصلاح طلب پہلو:ص۶۹)
احمد رضاخان کی ان فتاو ی کی ر وشنی میں میثم کا یہ یہ کذاب گرو :
(۱) حرام کار
(۲) گناہ گار
(۳) سخت حرام کار
(۴) غیر متبحر
(۵) غیر مستندعالم
(۶) کم علم
(۷) حضور ﷺ اس سے کمال ناراض
(۸) مستحق غضب الٰہی
(۹) جاہل
(۱۰) جری قاری
(۱۱) وبال عذاب میں گرفتار۔ثابت ہوا۔
مگر میثم ایسے لعنتی اور مردود آدمی کو ’’حضرت علامہ‘‘ لکھتا ہے ۔میثم دجال کو دیوبندیوں کی نام نہاد تحریفات اور خیانتیں تو نظر آتی ہیں مگر خود اپنے ہاتھ سے جو اس نے اپنے باپ کے ر سالے میں تحریف ، خیانت اور بددیانتی کی اس خبیث کو یہ خباثت نظر نہیں آتی؟؟دجال میثم دوسروں پر تو تو تحریفات کا مضمون لکھتا ہے اپنی اس تحریف پر تیرا کیا جواب ہے ؟کیا یہ کھلی بے غیرتی نہیں کہ ایک آدمی خود محرف ،خائن ہو اور دوسروں پر مضمون لکھے کہ فلاں فلاں تحریف کردی؟؟۔
ذوالفقار رضوی اپنے فتوے کی زد میں
بھگوڑے اور جاہلوں کے آئی جی ذو الفقار رضوی نے اپنے مضمون میں ایک حدیث لکھی کہ:
’’آخری زمانے میں جھوٹے دجال (فریبی)ہوں گے جو تمہارے پاس وہ باتیں لائیں گے کہ نہ تم نے سنیں نہ تمہارے باپ دادا نے تم اپنے آپ کو ان سے بچاؤ او ر ان سے دور رہو ،کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں اور فتنہ میں نہ ڈال دیں‘‘۔ (کلمہ حق شمارہ نمبر :۴:ص ۳۹)
اور آگے اپنی خباثت کا اظہا ر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس حدیث کا مصداق ’’دیوبندی،وہابی ‘‘ ہیں اللہ کے رسول ﷺ نے ان کو دجال یا کذاب کہا (کلمہ حق شمارہ ۴ :ص ۴۰)
اس حدیث کا مصداق دیوبندیوں کو بتانامحض ا س دجال رضوی کی شقاوت قلبی اور خبث باطنی ہے لیکن آئے ہم خود اس دجال کے مسلک کے شرف ملت اور مورخ بریلویت کے قلم سے ثابت کردیتے ہیں کہ اس حدیث کا مصداق علمائے دیوبند نہیں بلکہ اس کے اپنے باپ ہیں چنانچہ مولوی عبد الحکیم شر ف قادری نے خلفاء راشدین کے متعلق اس قسم کی روایات بیان کرنے والوں کے متعلق کہا :
’’حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:میری امت کے آخر میں ایسے لو گ ہوں گے جو تم کو ایسی حدیثیں بیان کریں گے جو نہ تم نے سنی ہونگی اور نہ تمہارے آباء نے ،تم ان سے دور رہنا ‘‘۔
(عید میلاد النبی ﷺ اور چند اصلاح طلب پہلو:۶۲)
دیکھا رضوی!!! اللہ کی پھٹکار، جیسے ہی تم نے حدیث رسول ﷺ پر جھوٹ بولا اور اللہ کے کامل ولیوں پر دشنام طرازیاں کیں اللہ نے تمہارے بڑوں کا ٹھکانہ تمہیں دکھادیا ہم نے خود تیرے ڈیڈی کی عبارت سے ثابت کردیا کہ اس حدیث کا مصداق دیوبندی نہیں بلکہ بریلوی شیخ الحدیث اور شیخ التفسیر فیض ملت دجال و کذاب فیض احمد اویسی ہے۔
اب اگر تو نے اپنے نام کے ساتھ ’’رضوی‘‘ کا لقب رجسٹرڈشدہ بے غیرت ہونے کیلئے نہیں لگایا تو ہم تیرا ہی فیصلہ تیرے سامنے رکھتے ہیں اور تو اس کی تصدیق کر :
’’ان لوگوں کو(یعنی بریلویوں کو۔ازناقل) کیا آپ مسلمان کہیں گے یا رسول اللہ ﷺ اور صحابی ابن عبر رضی اللہ تعالی عنہما کے مطابق کہیں گے‘‘۔
(کلمہ حق شمارہ نمبر ۴:ص ۴۰)
**************
بریلوی علماء یہود کے نقش قدم پرقارئین اہلسنت! ہم نے ’’سیف حق ‘‘ میں میثم رضوی کے مضمون کے جواب میں ایک مضمون لکھا تھا کہ کس طرح رضاخانیوں نے اپنی کتابوں میں تحریفات کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے ۔الحمد للہ ہمارے اس مضمون کی گونج بڑے بڑے بریلوی مکتبوں میں سنائی گئی اور ’’کرماں والا بک شاپ ‘‘ نے سابقہ غیر تحریف شدہ’’معدن کرم‘‘کاپرانا ایڈیشن شائع بھی کردیا مگر اس ایڈیشن میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ نئے ایڈیشن میں تحریف آخر کس بنیاد پر کی گئی تھی؟ اور جب وہ ایڈیشن ابھی تک موجود ہے تو یہ ایڈیشن کیوں شائع کیا جارہا ہے ؟،اسی طرح ہمیں توقع تھی کہ میثم رضوی انصاف ودیانت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے بڑوں کی کتابوں میں ان تحریفات پر بھی کوئی لب کشائی کریں گے مگر نام نہاد کلمہ حق کے چار شمارے شائع ہوگئے میثم نے اپنے منہ پر تالے لگائے ہوئے ہیں ،حقیقت یہ ہے کہ رضاخانیت نام ہی دو رنگی اور منافقت کا ہے ان کے اصول اپنوں کیلئے کچھ اور ہوتے ہیں اور مخالفین کیلئے کچھ اور ہوتے ہیں جو چیز ہمارے لئے کفر وہی چیز ان کیلئے عین اسلام ہوتی ہے میں یہاں صفحات کی تنگی کی وجہ سے صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں ۔ضیغم رضاخانیت مولوی حسن علی رضوی لکھتا ہے کہ :
(قسط دوم)
ساجد خان نقشبندی
’’جن الفاظ کا معنی صحیح اور ایک معنی غلط اور بے ادبی و گستاخی پر مبنی ہو ایسا ذو معنی الفاظ بھی سخت ممنوع ہے ۔للکفرین میں واضح اشارہ ہے ۔انبیاء علیہم السلام کی شان ارفع میں ادنی بے ادبی بھی کفر قطعی ہے ‘‘۔
(محاسبہ دیوبندیت :ص )
یہاں مولوی حسن علی رضوی نے’’ذو معنی‘‘ الفاظ کے استعمال کو کفر کہا مگر جب اپنے بڑوں کی گستاخی کی بات آئی تو کیا لکھتا ہے ذرا ملاحظہ فرمائیں:
’’مذکورہ بالا لفظ بھی ذو معنی ہیں قائل کو کفر سے بچایا جائے گا اور الفاظ کو غیر کفریہ معنی پر محمول کیا جائے گا‘‘ ۔ (برق آسمانی :ص ۱۴۷۔البرہان پبلیکیشنز)
دیکھا منافقت کو دوسروں کیلئے ذو معنی لفظ کفر اور اپنوں کیلئے ذو معنی لفظ اسلام اور وہ معنی مراد لیا جائے گا جو کفر کامعنی نہ رکھتا ہو۔ا س موضوع پر استاذمحترم مناظر اسلام حضرت مولانا مفتی حماد احمد صاحب نقشبندی مدظلہ العالی کی ایک مستقل کتاب ہے جو جلد ہی منظر عام پر آنے والی ہے ۔بہرحال ا ب میں اپنے اصل مقصدکی طرف آتا ہوں او ر بریلوی کتب میں ہونے والی مزید تحریفات پیشکرتا ہوں:
رضاخانی تحریف۳۲:
پیر کرم شاہ بھیروی کا خلیفہ حافظ احمد بخش لکھتا ہے کہ :
’’تحذیر الناس والی عبارت کے بارے میں ضیاء الامت رحمۃ اللہ علیہ نے ایک طرف پیر مہر علی شاہ گولڑوی اور پیر جماعت علی شاہ محدث علی پوری کے موقف پر عمل کیا ‘‘۔ (جمال کرم :ج۱:ص ۶۹۶:بار اول۔ضیاء القرآن پبلی کیشنز)
اس عبارت سے ثابت ہوا کہ مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی عدم تکفیر پر یہ تینوں حضرات متفق تھے ۔یہ عبارت رضاخانیوں کیلئے کسی موت سے کم نہ تھی چنانچہ جب جمال کرم کا نیا ایڈیشن شائع کیا گیا تو اس عبارت سمیت کل ’’۳۱ سطور‘‘ کو غائب کردیا گیا وہ بھی بنا ڈکار لئے ملاحظہ ہو:
(جمال کرم :ج۱:ص ۶۹۵۔۶۹۶:دسمبر ۲۰۱۱،بار دوم۔ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور)
اب ذرا یہ عبارت اور اس کے آگے پیچھے کل ۳۱ عبارات ڈھونڈکر دکھائے نئے ایڈیشن میں دوربین لگانے پر بھی آپ کو یہ عبارت نظر نہیں آئے گی ہمیں حیرت ہے کہ میثم کو آخر یہ تحریفات نظر کیوں نہیںآتی؟
رضاخانی تحریف ۳۳:
الیاس عطا ر قادری صاحب کی کتاب ’’کفریہ کلمات کے بارے میں سوال و جواب ‘‘میں عطار صاحب لکھتے ہیں کہ:
’’میرے آقا اعلی حضرت ،امام اہلسنت ،مولینا شاہ امام احمد رضا خان ۔۔کے رسالہ ’’خالص الاعتقاد‘‘ کی تمہید میں لکھا ہے :۔ ۔ ۔ (۳)رسول اللہ ﷺ کا علم اوروں سے زائد ہے ،ابلیس کا علم معاذ اللہ علم اقدس سے ہر گز وسیع تر نہیں ‘‘۔
(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال وجواب :ص ۲۴۵:اکتوبر ۲۰۰۹:مکتبۃ المدینہ)
مفتیان دارالافتاء اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں کہ:
’’مجلس افتاء نے باقاعدہ کئی ہفتوں تک کئی کئی گھنٹوں کی طویل نشستوں میں اس کتاب کی ایک ایک جزئیہ پر غور کیا جن پر اشکال تھا اصل کتب سے مراجعت اور بڑی بحث و تمحیص و غور و فکر کے بعد اس جزئیہ کو رکھنے نہ رکھنے پر اتفاق کیا ‘‘۔
(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال و جواب :ص 1235)
حضرت فخر اہلسنت مناظر اسلام مولانا ابو ایوب قادری صاحب مدظلہ العالی نے اپنے ایک بیان میں صفحہ نمبر ۲۴۵پرموجود اس عبارت پر ایک اعتراض کیا کہ اس سے حضور ﷺ کی شان میں گستاخی ہوتی ہے تو بجائے یہ کہ رئیس المحرفین الیاس عطاری صاحب احمد رضاخان پر کوئی فتوی لگاتے اس کتاب میں بڑی چالاکی سے تحریف کردی اور دجل در دجل یہ کیا کہ نیا محرف شدہ ایڈیشن جو شائع کیا اس پر بھی تاریخ اشاعت ’’اکتوبر ۲۰۰۹‘‘ لکھ دی نئے ایڈیشن میں عبارت ملاحظہ ہو:
’’خالص الاعتقاد کی تمہید میں حضرت علامہ سید عبد الرحمن ۔۔لکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ رسول اللہ ﷺ کا علم اوروں سے زائد ہے ‘‘۔
(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال و جواب :ص ۲۴۵:اکتوبر ۲۰۰۹:مکتبۃ المدینہ )
اصل عبارت میں ’’مولوی عبد الرحمن ‘‘ کا نام نہیں تھا تحریف شدہ عبارت میں اس نام کا اضافہ کردیا گیا اسی طرح اصل عبارت ’’ابلیس کا علم۔۔۔الخ یہ تمام عبارت جو اصل گستاخی پر مبنی تھی اسے ہضم کردیا گیا۔دعوت اسلامی کی ویب سائٹ پر اب تک غیر تحریف شدہ کتاب کا نسخہ موجودہے مگر مارکیٹ میں تحریف شدہ نسخہ ہی دستیاب ہے ۔حیرت ہے کہ تحریف شدہ نسخے پر بھی مفتیان دعوت اسلامی کا وہی نو ٹ لگا ہوا ہے اب یہ مفتیان ہمیں جواب دیں کہ اگر وہ عبارت درست تھی تو نئی عبارت میں تحریف کیوں کی؟کیوں اس جزئیہ کو نکال دیا گیا ؟ ہم نے جب دعوت اسلامی سے رابطہ کیا تو ہمیں کہا گیا کہ رمضان میں اس کا نیا ایڈیشن آئے گا حاشیہ میں اس کی وضاحت کردیں گے ہم نے کہا وضاحت پہلے کیوں نہیں کی؟ جب ہم نے گردن پکڑی تو اب وضاحت یاد آگئی ؟ہم نے کہا چلو وضاحت جو آئے گی وہ بھی دیکھ لیں گے ہمیں صرف اتنا بتادیں کہ تحریف شدہ اور غیر تحریف شدہ دونوں ایڈیشنوں پر تاریخ اشاعت ایک کیوں ڈالی گئی کم سے کم اس دجل کا جواب تو ابھی بھی دے سکتے ہو فبھت الذی کفر۔
ہم یہاں مولوی فضل اللہ رضاخانی کی زبان میں بریلویوں سے کہیں گے کہ:
’’علمائے اہلسنت نے جب جب ان کی گرفت کی ،انہوں نے اپنے فاسد عقیدے سے توبہ و رجوع تو نہیں کیا ،مگر منافقانہ طور پر گستاخانہ عبارات کو نرم کردیا ۔دل سے وہ اب بھی رسول کریم ﷺ کی تعظیم کے قائل نہیں جبکہ تحریر میں عوام الناس کو دھوکہ دینے کیلئے بظاہر علماء اہلسنت کی گرفت کی وجہ سے احتیاط برتی جانے لگی ہے۔جس کا مظاہرہ تمام متنازعہ کتب کے سابقہ اور نئے ایڈیشن کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے ۔اور یہی ان کی منافقت ان کے باطل ہونے کی واضح دلیل ہے ‘‘۔
(تحریفات :ص ۱۳۸مکتبہ غوثیہ کراچی)
رضاخانی تحریف ۳۳
نور بخش توکلی نے نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ پر ایک کتاب لکھی ’’سیرت رسول عربیﷺ‘‘ اس کتاب کے متعلق جید بریلوی علماء کا کہنا ہے کہ یہ کتاب حضور ﷺ کی بارگاہ میں پیش ہوئی اور آپ نے اسے شرف قبولیت بخشا ۔اس کتاب میں مولوی نور بخش توکلی حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ:
’’مولانا مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ ‘‘۔
(سیرت رسول عربی:ص۶۶۶ ضیاء القرآن پبلیکیشنز)
دیکھا کس قدر ادب سے حضرت کا نام لیا اور ساتھ میں ’’رحمۃ اللہ علیہ ‘‘ بھی لکھا ،معلوم ہوا کہ حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایمان حضور ﷺ کے ہاں بھی مقبول ہے کہ حضوراس کتاب کی تصدیق کرچکے ہیں ۔ الحمد للہ۔اس کتاب کا ایک نسخہ ’’مکتبہ اسلامیہ ‘‘ نے شائع کیا جس نے تفسیر نعیمی شائع کی اس میں بھی عبارت یوں ہے :
’’مولانا مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ ‘‘۔
(سیرت رسول عربی :ص ۵۶۳:مکتبہ اسلامیہ لاہور)
اسی طرح اس کا ایک نسخہ ’’تاج کمپنی‘‘ نے شائع کیا اس میں بھی عبارت یوں ہے :
’’مولانا مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی ؒ ‘‘
(سیرت رسول عربی ﷺ:ص۸۶۳)
اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نسخہ شائع کرنے کی اجازت خودمصنف نے تاج کمپنی کو دی،چنانچہ لکھتا ہے کہ :
’’دوسری بار زیر اہتمام تاج کمپنی لیمیٹڈ لاہور چھپ رہی ہے جس کی مطبوعات اعلی درجہ کی ہیں ‘‘۔(دیباچہ طبع دوم)
اسی طرح اس کا ایک نسخہ ’’اکبر بک سیلز‘‘ نے شائع کیا اس میں بھی عبارت یوں ہے
’’۴۰۔مولانا مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ‘‘۔
(سیرت رسول عربی ﷺ:ص۵۵۵:اکبر بک سیلز لاہورنومبر۲۰۰۴)
مگر برا ہو تعصب کا جب ایک رضاخانی مکتبے جس کا پتہ کلمہ حق پر بھی دیا گیا ہے کہ یہاں سے کلمہ حق دستیاب ہے نے جب اس کتاب کو شائع کیا تو عبارت میں یوں تحریف کردی:
’’دیوبندیوں کے امام مولوی محمد قاسم نانوتوی ‘‘۔
(مکتبہ رضویہ فیروز شاہ اسٹریٹ آرام باغ کراچی:۵۵۸)
عبارت میں’’ مولانا‘‘ اور’’ رحمۃ اللہ علیہ‘‘ کو بالکل غائب کردیا اور’’ دیوبندیوں کے امام‘‘ کا اضافہ کردیا۔ غور فرمائیں یہ کتاب بقول بریلویوں کے کوئی معمولی کتاب نہ تھی اسے تو حضور ﷺ نے اپنی بارگاہ اقدس میں شرف قبولیت بخشا تھا حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ کے ایمان پر تو خو د حضور ﷺ نے مہر تصدیق ثبت فرمادی تھی مگر بریلوی حضورﷺ کی منظور کردہ کتاب میں بھی تحریف کرتے ہوئے نہ شرمائے اسی لئے تو میں نے کہا کہ یہ یہود کے نقش قدم پر ہیں او ر یہود کی روحانی اولاد یں ہیں۔
(جاری ہے)
***********
منافقوں کا آئی جی مسماۃ میثم عباس رضوی رضاخانیدوستو!اس مضمون میں ہم نام نہا دکلمہ حق کے زنانی ایڈیٹرہ ذو وجہین مسماۃ میثم رضوی خبیثہ کی منافقت اور دو رنگی کا پردہ فاش کریں گے۔سوملاحظہ فرمائیں اس سلسلہ میں چند حوالے۔مولوی محبوب الرسول قادری نے نورانی پر ایک خصوصی شمارہ نکالا اس میں وہ لکھتا ہے کہ:
(قسط اول)
رانا محمدشفیق جرال
’’۔۔۔محترم میثم عباس رضوی صاحب مدیر کلمہ حق نے بھرپور علمی و عملی تعاون فرمایا جس کے بغیر شائد اس کام کی تکمیل میرے لئے ممکن نہ تھی‘‘۔
(انوار رضا:ج۴:شمارہ۴:ص۵)
اس رسالے میں جس کی اشاعت مسماۃ میثم کی علمی و عملی تعاون کے بغیر ممکن نہ تھی میں صاحبزادہ ابو الخیر کو ان القاب سے یاد کیا گیا :
’’شیخ القرآن حضرت پیر طریقت علامہ مفتی صاحبزادہ ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر‘‘۔(انوار رضا:ص۱۵)
مگر دوسری طرف مسماۃمیثم اسی ابو الخیر کو اپنے رسیلیا میں :
’’یہ ابو الخیر (ابو الشر) کی بکواس ہے ‘‘۔(کلمہ حق :شمارہ ۶:ص۸۴)
لکھتی ہے ۔دیکھا مسماۃمیثم کی منافقت کو کہ جب ابو الخیر سے تقریظ لینے کا موقع آیا تو ابو الخیر شیخ القرآ ن ہوگیا اور جب اس شیخ القرآن نے مزاج کے خلاف ایک حقیقت پر مبنی بات کی تو وہی شیخ القرآن ابو الشر ہوگیا ۔
مسماۃ میثم خبیثہ نے اپنی رسیلیا میں لکھا کہ :’’سیف حق نامی مجموعہ مغلظات‘‘۔(کلمہ حق شمارہ ۹:ص۵) اب کوئی اس خبیثہ سے پوچھے کہ اگر سیف حق مجموعہ مغلظات ہے تو تونے جو اپنے شمارہ میں ہمارے قریبا ہر عالم کو درجن بھر گالیاں دیں وہ کیا گلاب کے پھول ہیں؟اس منافقہ کو اپنے رسالے میں مغلظات نظر نہیں آتیں اور دوسروں کو مجموعہ مغلظات کا نام دیتی ہے ۔
مسماۃ میثم نے کلمہ حق شمارہ ۴:ص۱۰ پر احمد کاظمی رضاخانی کا ’’درس حدیث ‘‘ دیا اور اس کے نام کے ساتھ ’’قدس سرہ ‘‘ لکھا فہرست میں اس دجال کے نام کے ساتھ ’’علیہ الرحمۃ ‘‘ لکھا حالانکہ اسی شمارہ ۴ کی مجلس تحقیق میں ایک شخص کا نام یوں دیا گیا ہے :
’’ترجمان مسلک اہلسنت علامہ ابو حذیفہ کاشف اقبال مدنی (شاہ کوٹ)‘‘
یہ وہی رضاخانی ہے جس نے کاظمی کے متعلق ایک استفتاء مفتی محمد بخش قادری کو بھیجا جس کے جواب میں اس رضاخانی مفتی نے کفر کا فتوی دیا۔انشاء اللہ ’’قہر حق‘‘ کے اگلے شمار ے میں اس فتوے کا عکس بھی شائع کردیا جائے گا۔یہ کیا منافقت ہے کہ ایک طرف مسماۃ میثم دجال کا یہ خبیث ترجمان کاظمی پر کفر کے فتوے لے رہا ہے او دوسری طرف تم اس کافر کو علیہ الرحمۃ لکھ رہے ہو؟
(جاری ہے )
مولانا عبید اللہ سندھی ؒ پر انکارحیات عیسیٰ علیہ السلام کے الزام کا جوابلاہور کے ایک رضاخانی نے اپنے رسالے نام نہاد کلمہ حق کے شمارہ ۷:ص ۸۹،۹۰ پر یہ اعتراض کیا ہے کہ مولانا عبید اللہ سندھی نے اپنی تفسیر ’’الہام الرحمن‘‘ میں حیات عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کیا ہے اور مولانامحمد لدھیانوی مرحوم نے حیات عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کرنے والے کو کافر کہا اب دیوبندی یا تو مولانا کے فتوے کو غلط ٹھرائیں یا مولانا عبید اللہ سندھی کی تکفیرکریں(ملخصا)معا ذ اللہ۔
ایڈووکیٹ محمد قاسم نقشبندی
الحمد للہ ! ہمیں نہ تو مولانا لدھیانوی کے فتوے کی تغلیط کی ضرورت ہے نہ امام انقلاب ؒ کی تکفیر کی البتہ میثم رضوی پہلی فرصت میں صبح شام سو سو بار اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم کا وظیفہ پڑھ کر پانی پر دم کرکے پئے تاکہ اندر سے رضاخان بریلوی باہر نکلے اس کے بعد فورا اپنے دماغ کا علاج کروائے۔پہلی بات تو یہ کہ اس اعتراض کا جواب ہمارے علماء کئی سال پہلے دے چکے ہیں اس لئے بجائے ان جوابات کا جواب دینے کے دوبارہ اس اعتراض کو دہرا کر میثم نے انتہائی ڈھیٹ پن اور بے شرمی کا مظاہرہ کیا ہے یہ بات ہم نہیں کہہ رہے ہیں ضیغم رضاخانیت حسن علی رضوی اپنے مجموعہ مغلظات میں لکھتا ہے کہ :
’’یہ ڈھٹائی اور بے شرمی ہے کہ کٹے ہوئے اعتراضات اور پٹے ہوئے سوالات پھر کئے جارہے ہیں‘‘۔
(برق آسمانی :ص ۱۴۲)
اس کے بعد بندہ عرض کرتا ہے کہ اس جاہل نے پہلا دجل تو یہ کیا کہ ’’الہام الرحمن‘‘ کو مولانا عبید اللہ سندھی ؒ کی تفسیر کہا حالانکہ اس جاہل کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ یہ مولانا کی اپنی تصنیف یا تفسیر نہیں بلکہ ’’موسی جار اللہ ‘‘ کی تالیف ہے جس کے متعلق ان کادعوی ہے کہ یہ حضرت سندھی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’املائی تفسیر ‘‘ ہے۔غلام مرتضی ایک غیر مقلد کے یہ کہنے کہ حضور فرماتے ہیں حی علی الصلوۃ ۔۔حی علی الفلاح کے بعد بھی دعا قبول ہوتی ہے (حزب الرسول ص۵۰) بڑے سیخ پا ہوئے کہ یہ جھوٹ ہے حزب الرسول میں حضور نے کیسے فرمادیا (ملخصا کلمہ حق شمارہ ۴:ص۳۱)تو جاہل یہ حضرت سندھی رحمۃ اللہ علیہ کی اپنی تفسیر نہیں بلکہ ان کے شاگرد کی تالیف ہے ۔جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ حضرت سندھی رحمۃ اللہ علیہ کی اپنی کتاب نہیں تو اب ہم پر حجت نہیں یہ بات میں نہیں کہہ رہابلکہ ضیغم رضاخانیت حسن علی رضوی اپنے مجموعہ مغلظات میں لکھتا ہے کہ :
’’حدائق بخشش حصہ سوم کسی بھی سنی عالم کے نزدیک ہر گز معتبر و قابل حجت نہیں۔کیوں اس لئے کہ حصہ سوم نہ تو سارے کا سارا سیدی اعلیحضرت ۔۔کے اشعار مبارکہ کا مجموعہ ہے نہ یہ اعلحضرت نے خود شائع فرمایا نہ آپ کی حیات طیبہ میں کسی نے لیا ‘‘۔(قہر خداوندی:ص ۲۱۵)
اب میثم ثابت کرے کہ یہ تفسیر مولانا سندھیؒ نے خود شایع کی یا مولانا سندھیؒ کی حیات میں کسی مستندآدمی نے اس کتاب کو مستند کہا ہو۔دوسری بات مولانا سندھی ؒ کے یہ شاگرد یعنی موسی جا راللہ اور ایک دوسرے شاگرد عبد اللہ لغاری ہمارے لئے قطعا حجت نہیں اور نہ ہی یہ کوئی معتبر لوگ ہیں ۔چنانچہ حضرت صوفی عبد الحمید خان سواتی ؒ لکھتے ہیں کہ:
’’مولانا عبید اللہ سندھی کی طرف منسوب اکثر تحریریں وہ ہیں وہ ہیں جو املائی شکل میں ان کے تلامذہ نے جمع کی ہیں ۔مولانا کے اپنے قلم سے لکھی ہوئی تحریرات اور بعض کتب نہایت دقیق و عمیق اور فکر انگیز ہیں اور وہ مستند بھی ہیں۔لیکن املائی تحریروں پر پورا اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔اور بعض باتیں ان میں غلط بھی ہیں جن کو ہم املا کرنے والوں کی غلطی پر محمول کرتے ہیں مولانا کی طرف ان کی نسبت درست نہ ہوگی‘‘۔
(مولانا عبید اللہ سندھی ؒ کے علوم و افکار :ص ۷۸)
یہ حوالہ کلمہ حق شمارہ ۶ میں میثم نے بھی دیا ہے ۔لہٰذا ان املائی تفاسیر میں جو بھی قرآن و سنت کے خلاف بات ہوگی اسے یا تو ان دونوں کی ذاتی خیالات کہا جائے گا یا اسے کاتب کی غلطی تصور کیا جائے گا۔حضرت سواتی ؒ مزید لکھتے ہیں کہ:
’’پوری کتاب من و عن مولانا سندھی ؒ کی طرف منسوب کرنا بڑی زیادتی ہوگی۔ اور اس کو اگر علمی خیانت کہا جائے تو بجا ہوگا کچھ باتیں اس کی مشتبہ اور غلط بھی ہیں جن کے مولانا سندھی ؒ قائل نہیں تھے۔اور نہ وہ باتیں فلسفہ ولی اللہی سے مطابقت رکھتی ہیں‘‘۔(عبید اللہ سندھی ؒ کے علوم و افکار :ص۶۸)
تو میثم رضوی صاحب انکار حیات عیسیٰ علیہ السلام بھی انہی غلط اور مشتبہ باتوں میں سے ایک بات ہے ۔ اسی طرح ان کے ایک اور شاگرد عبد اللہ لغاری کی املائی تفسیر ’’المقام المحمود‘‘ بھی ہے جو گمراہیوں اور غلط عقائد کا مجموعہ ہے جس سے نیچریت صاف چھلکتی ہے اس کی نسبت بھی حضرت سندھی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف کرنا ہرگز درست نہیں۔حضرت سواتی صاحب ؒ نے عبید اللہ سندھی ؒ کے علوم و افکار :ص۸۴ پر اس املائی تفسیر کو بھی غیر مستند مانا۔اور پھر یہ دونوں غیر مستند املائی تفاسیر تضادات کا مجموعہ ہے ایک ہی تفسیر میں ایک جگہ کچھ لکھا جبکہ دوسری تفسیر میں اسی مقام کی تفسیر بالکل الٹ لکھی گئی ہے لہٰذا اذا تعارضا تساقطا۔ یہ تضاد و تعارض بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ان کتابوں کے مولفین نے خود اپنی ذہنی اختراعات کو ان کتابوں میں شامل کیا یا بعد کے لوگوں کی تدلیسات ہیں ۔اگر میثم رضوی مطالبہ کرے تو انشاء اللہ ہم ان تضادات کی کئی مثالیں پیش کردیں گے فی الحال تو صفحات کی تنگی آڑے آرہی ہے ۔
میثم نے جو عبارت الہام الرحمن کی نقل کی ہے اس کے متعلق ایک توجیہ یہ بھی ہے کہ یہاں موسی جار اللہ کو حضرت سندھی رحمۃ اللہ علیہ کا منشاء سمجھنے میں غلطی ہوئی وہ یوں کہ دراصل حضرت سندھی رحمۃ اللہ علیہ یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رفع الی السماء کا انکار نہیں فرمارہے ہیں بلکہ حضرت علیؓ کے رفع السماء پر اس آیت سے روافض کے استدلال کا رد کررہے ہیں جسے شاگرد نے اپنی غلط فہمی کی بنیاد پر حیات عیسی ٰ علیہ السلام کی نفی پر محمول کرکے اسے یہاں اپنے الفاظ میں نقل کردیا ہماری اس توجیہ کاقرینہ خود عبارت میں موجود ہے وہ اس طرح کہ موسی جاراللہ حضرت سندھی ؒ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ اس آیت سے مع الجسد رفع الی السماء کا استدلال و عقیدہ فتنہ شہادت عثمانؓ کے بعد اس وقت وجود میں آیا جب خوارج نے حضرت علیؓ کو شہید کردیا۔اور حفاظتی نکتہ نظر سے حضرت علیؓ کی قبر کو عوامی نظروں سے پوشیدہ رکھنا پڑا۔اور یہ استدلال و عقیدہ ان لوگوں کی ذہنی اختراع کا نتیجہ تھا جو یہودی و صابی تھے۔اگر اس پہلو سے عبارت کا جائزہ لیا جائے تو ظاہر ہے کہ حضرت علیؓ کے رفع الی السماء کی روایات کے ناقل وہی لوگ تھے جو یہودی و صابی تھے ورنہ ایک عام مسلمان کی طرف سے بھی اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اسلام کے ایک متفقہ عقیدے کو یہودیوں کا عقیدہ قرار دے پھر عبید اللہ سندھی ؒ جیسی شخصیت سے تو ہر گز ا سکا تصور ممکن نہیں۔
مولانا عبید اللہ سندھی ؒ کے مایہ ناز شاگرد اور عقیدہ حیات عیسیٰ علیہ السلام
حضرت سندھی رحمۃ اللہ علیہ کے ان دو شاگردوں کے علاوہ قریبا حضرت سندھیؒ کے تمام قابل اعتماد شاگرد حیات عیسیٰ علیہ السلام کے قائل تھے جن میں پیش پیش حضرت شیخ القرآن مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کو حضرت سندھی ؒ نے بچپن میں ہی اپنی تربیت میں لے لیا تھا اور خود اپنے ہاتھ سے فراغت کی سند عطا کی بعد میں حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ سے نکاح بھی کیا گویا حضرت سندھی رحمۃ اللہ علیہ حضرت لاہوری کے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ سوتیلے والد بھی تھے ۔حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
’’حیات مسیح کے بارے میں مولانا عبید اللہ سندھی وہی عقیدہ رکھتے تھے جو دوسرے علماء دیوبند کا ہے ۔مگر افسوس کہ موسی جار اللہ اپنی بات مولانا سندھی کے نام سے کہہ کر لوگوں کو مغالطہ دے رہا ہے ۔مولانا سندھی کے نظریات و عقائد وہی ہیں جو میں نے حاشیہ قرآن میں لکھ دئے ہیں‘‘۔
(خدام الدین کا احمد علی لاہوری ؒ نمبر :ص ۲۰۶)
اس حاشیہ تفسیر کا کیا مقام ہے علامہ خالد محمود صاحب کی زبانی سنئے :
’’مولانا احمد علی صاحب ؒ نے حضرت شاہ ولی اللہ اور مولانا عبید اللہ سندھی کی تعلیمات کی روشنی میں قرآن پاک کا ایک مختصر اور جامع حاشیہ تحریر فرمایا آپ نے اس میں سورت سورت اور رکوع رکوع کے عنوان خلاصے اور مقاصد نہایت ایجاز اور سادہ زبان میں ترتیب دئے جہاں جہاں مضمون ایک موضوع پر جمع دکھائے دئے ان کو موضوع دار اور طویل اور مفصل فہرست اپنے حاشیہ قرآن سے بطور مقدمہ شامل فرمائی عصری تقاضہ تھا کہ اختلاف سے ہر ممکن پرہیز کیا جائے اس لئے آپ نے ترجمہ قرآن پر ہر مسلک کے علماء کی تائید حاصل کی آپ کی پوری کوشش تھی کہ قرآن پاک کا ایک مجموعہ حاصل قوم کے سامنے رکھ سکیں۔ آپ جب یہ مسودے تیار کرچکے تو انہیں لیکر دیوبند پہنچے۔دیوبند میں ان دنوں محدث کبیر حضرت مولانا سید انور شاہ شیخ التفسیر حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی اورشیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کا دور دورہ تھا۔آپ نے یہ سب مسودات ان حضرات کے سامنے رکھ دئے اور بتایا کہ انہوں نے یہ قرآنی محنت مولانا عبید اللہ سندھی ؒ کی تعلیمات کی روشنی میں سر انجام دی ہے مولانا سندھی ؒ پرچونکہ سیاسی افکار غالب تھے اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ خالص دینی نقطہ نظر سے بھی اس قرآنی خدمت کا جائزہ لیا جائے اگر اکابر دیوبنداس کی تصدیق فرمادیں تو وہ اسے شائع کردیں گے وگرنہ وہ یہ مسودات یہی چھو ڑ جائیں گے پھر ان کی انہیں کوئی حاجت نہیں ہوگی۔
اکابر نے ان کی تصدیق کی اور حضرت شیخ التفسیر مرکز دیوبند سے تصدیق لے کر لاہور واپس ہوئے اس ترجمے اور تحشئے کی نہ صرف اشاعت کی بلکہ درس و تدریس میں بھی قرآن کریم کا ذوق ہزاروں مسلمانوں کے دل و دماغ میں اتاردیا‘‘۔
(خدام الدین کاشیخ التفسیر امام احمد علی لاہوری نمبر :ص ۲۰۶)
ایسی مستند تفسیر کے مقابلے میں موسی جار اللہ اور عبد اللہ لغاری کی کیا حیثیت ہے ؟حضرت لاہوری کے علاوہ حضرت سندھیؒ کے دیگر قابل اعتماد شاگرد مثلا:خواجہ عبد الحئی فاروقی(تفسیر الفرقان فی معارف القرآن :ج۱:ص ۶۸۳،مولانا سلطان محمود صاحب ؒ (ضرورت رسالت :حصہ دوم )،مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ (قصص القرآن جلد چہارم :ص ۱۱۹)نے بھی حیات عیسیٰ علیہ السلام کو مندرجہ بالا حوالوں میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا ،اب مولوی نصیر الدین سیالوی ہی کی زبانی :
’’اگر سرفراز کی بات صحیح ہوتی تو حضرت گھوٹوی کے تلامذہ کو یہ بات معلوم ہوتی اور ان سے مخفی نہ رہتی‘‘۔(عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ:ج۱:ص ۵۱)
تو اگر سندھی رحمۃ اللہ علیہ کا عقیدہ وہی ہوتا جو میثم صاحب ثابت کرنا چاہتے ہیں تو یقیناًان کے شاگردوں کو بھی یہ بات معلوم ہوتی اور اس عقیدے کا اظہار کرتے نہ کہ اس کے خلاف بیان کرتے۔
حیات عیسیٰ علیہ السلام پر حضرت سندھی ؒ کی اپنی تصریح:
’’فائدہ دوم!امام ولی اللہ وہلوی ؒ ’’تفہیمات الٰہیہ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالی نے بذیعہ الہام سمجھایا ہے کہ تجھ پر دو جامع اسموں کا نور منعکس ہوا ہے ۔اسم مصطفوی اور اسم عیسوی علیہما الصلوت والتسلیمات تو عنقریب کمال کے افق کا سردا ربن جائے گا اور قرب الٰہی کی اقلیم پر حاوی ہوجائے گا ۔تیرے بعد کوئی مقرب الٰہی ایسا نہیں ہوسکتا جسکی ظاہری و باطنی تربیت میں تیرا ہاتھ نہ ہو۔یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں‘‘۔
(رسالہ عبیدیہ اردو ترجمہ محمودیہ:ص۲۷)
یہاں حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے واضح طور پر نزول عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ لکھایہ تالیف ان کے آخری ایام ۱۳۳۹ھ کی ہے لہٰذا ان کی اپنی اس تحریر کے ہوتے ہوئے کسی غیر معتبر املائی تفسیر کی کوئی حیثیت نہیں۔
الزامی جواب
امام انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھی ؒ پر یہ اعتراض کوئی نیا اعتراض نہیں اور اس اعتراض کے جواب میں علمائے حق کی طرف سے کافی کچھ لکھا جاچکا ہے جس سے ہم نے بھی استفادہ کیا رسالے کی صفحات کی تنگی کی وجہ سے ہم نے انتہائی مختصر جواب دیا۔ اب چند الزامی جوابات بھی سن لیں۔میثم نے جو عبارت پیش کی اس میں یہ امکان بھی ہے کہ یہ کسی کاتب کی غلطی ہو وصایا شریف اور حدائق بخشش کے متعلق بریلوی کہتے ہیں کہ کاتب بدمذہب وہابی تھا اس نے یہ حرکت کی تو ہم بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ کاتب کوئی بد مذہب رضاخانی تھا اسی نے یہ حرکت کی ۔ایک احتمال یہ بھی ہے کہ یہ عبارت کسی بد مذہب کی تدلیس ہو چنانچہ مولوی حنیف قریشی کا چیلہ امتیاز رضاخانی لکھتا ہے کہ :
’’ملفوظات کے ذریعہ صاحب ملفوظ پر طعن نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اکثر صوفیاء سے منسوب ملفوظات میں رطب و یابس کی بھرمار ہے ان کی کوئی تاریخی اور یقینی حیثیت بھی نہیں ‘‘۔(حاشیہ گستاخ کون:ص ۵۳۰:مطبوعہ پنڈی)
اور املائی کتب کی حیثیت بھی ملفوظات کی طرح ہی ہوتی ہے ،اسی طرح مولوی محبوب لکھتا ہے کہ :
’’شاہ ولی اللہ صاحب اور شاہ عبد العزیز صاحب کی تصنیفات و تحریرات سنیوں کو اسماعیل دہلوی اور دوسرے وہابیوں کے ذریعہ سے ان کے تغیر و تبدل کے بعد پہنچیں‘‘ ۔
(کلمہ حق ۷:ص۳۶)
تو ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس املائی تفسیر میں بھی کسی کی طرف سے تغیر و تبدل کا احتمال ہے اور احمد رضاخان اور سیالوی لکھتے ہیں کہ:
اذاجاء الاحتمال بطل الاستدلال ۔(الامن والعلی:عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ)
اور ایسا ہوجانا کوئی نئی بات نہیں چنانچہ شرح فقہ اکبر کے جو نسخے بیروت یا مصر سے چھپے ہیں اس میں ہے:
’’لو کان عیسیٰ حیا ما وسعہ الااتباعی ‘‘
(شرح فقہ الاکبر :ص ۲۲۹۔دارالفکر و ص ۳۲۵ دارلبشائر بیروت)
مرزائی اسی قسم کے نسخوں سے استدلال کرتے ہیں کہ دیکھو ملا علی قاری ؒ بھی وفات عیسیٰ علیہ السلام کے قائل ہیں اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ یہ کاتب کی غلطی ہے یا تدلیس ہے مرزائیوں کی راہ پر چل کر یہی کام میثم نے کیا تو جو جواب شرح فقہ اکبر کی ا س عبارت کا مرزائیوں کو میثم دے وہی ہماری طرف سے الہام الرحمن کے جواب میں کلمہ باطل کے حاشیہ پر لکھ لے۔
وما علینا الا البلاغ المبین
توجہ فرمائیں
کلمہ حق شمارہ ۷ :ص ۶۳ تا ۸۰ میں مولوی فیض احمد اویسی کے تحریف شدہ رسالے ’’نظریا ت صحابہ‘‘ کا منہ توڑ جواب پڑھنے کیلئے مطالعہ کریں حضرت مولانانور محمد تونسوی صاحب مدظلہ العالی کی کتاب :
’’حقیقی نظریات صحابہؓ ‘‘
کتاب منگوانے کیلئے رابطہ کریں:جامعہ عثمانیہ ترنڈہ محمد پناہ ضلع رحیم یار خان 03077791760
بریلوی مفتی اعظم سید احمدقادری کے دجل و فریب کا تحقیقی وتنقیدی جائزہقارئین اہلسنت ! جیسا کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ بریلویت کے اکابر و بزرگان کی دو خصوصیات بہت مشہور ہیں جنہوں نے ان کو سب لوگوں سے منفرد بنا کے رکھا ہے ۔ میرے خیال ہے کہ آپ سمجھ گئے ہونگے ۔ یہ ہیں
(قسط اول)
مجاہد اہلسنت محمد سفیان معاویہؔ
۱۔ کذب ( جھوٹ )
۲۔ بہتان ( الزام )
ان ہی دو خصوصیات کا سہارا لیتے ہوئے نام نہاد بریلوی مفتی اعظم سید احمد بریلوی کا مضمون
’’دیوبندیوں کے عقائد کا مختصر کچھا چھٹا‘‘ کلمہ حق شمارہ ۷میں نظر آیا ۔
احمد قادری کی جہالت نمبر ۱ :
جاہل احمد قادری نے ’’ تقدیس الوکیل ‘‘ کے حوالے سے عوام الناس کو علمائے حقہ علمائے اہل السنت والجماعت حنفی دیوبندی سے بدگمان کرنے کی کوشش کی ہے۔
جبکہ جاہل کو اتنا علم نہیں کہ :
۱۔ تقدیس الوکیل بریلوی ملّا غلام دستگیر قصوری کی مرتب کردہ کتاب ہے جو کسی کیلئے قابل حجت نہیں اس میں نقل کردہ الفاظ بہتان پر مبنی ہیں ۔
غلام دستگیر قصوری مرتب تقدیس الوکیل کی علمی حیثیت
۲۔ ملفوظات مہریہ ص ۲۹ میں پیر مہر علی شاہ صاحب کاچشم دید واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ :
’’ الغرض حسبِ وعدہ جب میں وہاں پہنچا تو اچانک مولوی غلام دستگیر صاحب تشریف لائے ۔ اس سے پہلے مولوی صاحب کا میرے ساتھ کوئی تعلق و تعارف نہ تھا ۔ میں نے خلوت میں بطور علمی تحقیق کے مولوی صاحب سے ایک بات دریافت کی کہ مولوی صاحب اگر مباحثہ میں مخالف یہ اعتراض کرے تو آپ کے پاس کیا جواب ہوگا مولوی صاحب خاموش ہوگئے ۔اس سے معلوم ہوا کہ مولوی صاحب کا سرمایہ علمی نہ ہونے کے برابر ہے ۔‘‘
( ملفوظات مہریہ ص ۲۹ )
یہ ہے غلام دستگیر قصوری کا تعارف ۔آگے پڑھئے:
’’ اس لئے مولوی غلام دستگیر صاحب اوراق کے الٹ پلٹ اور حدیث کی تخریج میں مشغول ہوگئے لیکن کافی تلاش کرنے پر بھی حدیث نہ ملی ‘‘۔
( ایضاً ص ۲۹ )
آگے جب پیر مہر علی شاہ صاحب نے ان کی مدد کیلئے بولے تو اختتام پر کیاہوا وہ پڑھیے:
’’ جب مجلس برخاست ہوئی اور ہم وہاں سے نکلے تو مولوی غلام دستگیر صاحب نہایت شکریہ ادا کرنے لگے اور اثنا ئے راہ میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے اللہ تعالیٰ نے آپ کو میرے لئے تائید غیبی بنا کر بھیج دیا ہے ورنہ کام مشکل تھا ‘‘۔
( ایضاً ص ۳۰ )
یہ آپ کے غلام دستگیر صاحب کی علمی وسعت کا عالم ہے ۔اور ایسے آدمی کی مرتب شدہ کتاب کی بنیاد پر دوسروں کو الزام دیتے ہوئے آپ کو حیاء کیوں نہ آئی؟
۳۔ تقدیس الوکیل میں ’’ حکم ‘‘ خواجہ غلام فرید صاحب کو بنایا گیا جس کو بریلوی شیخ المشائخ بریلوی بزرگان میں شمار کرتے ہیں ۔
خواجہ صاحب علمائے دیوبند کے متعلق کہتے ہیں کہ :
مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا محمد قاسم :
’’ مولوی رشید احمد گنگوہی صاحب خلیفہ اکبر ہیں ۔ ان کے علاوہ اور خلفاء بھی بہت ہیں چنانچہ مولوی محمد قاسم صاحب اور مولوی محمد یعقوب صاحب و غیر ھم‘‘۔
(مقابیس المجالیس ص۳۵۲ )
آگے کہاہے کہ :
’’ اگرچہ دارالعلوم دیوبند کے بانی مبانی مولانا محمد قاسم نانوتوی مشہور ہیں ۔ لیکن دراصل یہ دارالعلوم حضرت حاجی امداد اللہ قدسرہ کے حکم پر جاری ہوا ‘‘ ۔( ایضاً ص ۳۵۲ )
اور اس کتاب میں یہ بھی ہے کہ حاجی صاحب حضرت نانوتوی ؒ اور حضرت گنگوہی ؒ کے ساتھ مل کر ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی میں شاملی کے میدان میں لڑے ( ایضاً ۳۵۲ )
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’ تمام اکابر دیوبند میں سے مولانا رشید احمد گنگوہی زیادہ سخت متبع شریعت مانے جاتے ہیں ۔ آپ کا درجہ اس قدر بلند ہے کہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی ہجرت کے بعدان کے تمام مریدین اور خلفا کے ہندوستان میں سر پرست اور سر براہ مولانا رشید احمد گنگوہی مانے جاتے ہیں ‘‘۔( ایضا ص ۱۷۲ )
یاد رہے کہ مقابیس المجالس خواجہ صاحب کے ملفوظات ہیں جس کا تذکرہ بریلوی مصنفین اپنی کتب میں کرتے رہتے ہیں ۔تذکرہ اکابر اہلسنت ، نور نور چہرے ، لطمۃ الغیب وغیر ہ وغیرہ ۔
علمائے دیوبند سے متعلقہ خواجہ صاحب کے تعریفی اور حقائق پر مبنی کلمات کو پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی سجادہ نشین گولڑہ شریف نے بھی اپنی کتاب میں نقل کیے ہیں ۔( لطمۃ الغیب علی الزالۃ الریب :ص ۲۲۱ )
’’ حضرت خواجہ صاحب کے اس ملفوظات سے ثابت ہوا کہ مولانا رشید احمد گنگوہی صحیح معنوں میں حاجی امداد اللہ مہرجر مکی کے خلیفہ اور اہل طریقت تھے حالانکہ بعض صوفی ان کو غلط فہمی سے وہابی کہتے ہیں ‘‘۔
(لطمۃ الغیب ص ۲۲۱)
’’مقابیس المجالس سے ’’ حکایت قدم غوث ‘‘ میں سیالوی صاحب کے ممدوح بصیر پوری نے استدلال کی کوشش کی ‘‘۔
(لطمۃ الغیب ص ۲۲۰ )
۴۔ تقدیس الوکیل میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی صاحب کا جو بیان دکھا یا گیا ہے اس کے جھوٹے ہو نے کی دلیل یہ ہے کہ انوار ساطعہ میں خود مولانا کیرانوی صاحب کا بیان موجود ہے کہ
’’ جو آپ کی ( عبد السمیع رامپوری) اور مولوی رشید احمد صاحب کی مخالفت حد کو پہنچ گئی اور تحریر بھی اب بڑی سختی سے ہوئی ہے‘‘۔( انوار ساطعہ ص ۳۰ )
آگے لکھتے ہیں کہ :
’’سو وہ ملاقات کرکے زبانی بھی آپ سے کہیں گے کہ یہ مقدمہ جتنا دب سکے دبائیو اور ہر گز نہ بڑھا ئیو‘‘۔ ( انوار ساطعہ ص ۳۰ )
دیکھئے ! یہاں مولانا کیرانوی صاحب خود اس معاملے کو دبانے کی بات کررہے اور بڑھانے کی اجازت نہیں دے رہے تو کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک بات کو خود ہی بڑھائے اور خود ہی روکے ؟ تو تقدیس الوکیل کو غلام دستگیر قصوری نے خود گھر بیٹھ کر من گھڑٹ باتوں سے بھرا ہے جس پر ہمارے پاس دلائل و براہین موجود ہیں جس کو ان شاء اللہ ہم وقت آنے پر ظاہر کریں گے ۔
(۵) ذرا تقدیس الوکیل کی حیثیت مسلک رضا خانیت میں ملاحظہ کرلی جائے
غلام دستگیر قصوری صاحب تقدیس الوکیل ص ۸۶۰ پر مفتی عبد اللہ ٹونکی کے بارے میں لکھاہے کہ
’’ رسا لہ تنزیہہ الرحمن راقم کے پاس موجود ہے جس میں اصل عربی تقریظ مولوی عبداللہ صاحب مرحوم کی مرقوم ہے‘‘ ۔ (تقدیس الوکیل ص ۸۶ )
یعنی ممدوح اور مرحوم کے الفاظ ٹونکی صاحب کیلئے موجود ہیں ۔
جبکہ مفتی عبدالقادر مدرس غوثیہ مسجد سادھوں لاہور لکھتے ہیں :
’’ مذکورہ بالا عقائد مولوی عبد اللہ ٹونکی کے سراسر باطل در باطل اور غلط در غلط ہیں ‘‘
( بازالتہ الضلالتہ فی اراء ۃ لہدایہ ص ۴ )
اس کتاب پر تقریظ امجد علی اعظمی رضوی اور احمد رضا خان بریلوی کی موجود ہیں ۔
اب بتاؤ باطل عقائد والے کو مرحوم اور ممدوح کہنا کیا مسلک رضا میں ٹھیک ہے ۔ ؟
۶۔ تقدیس الوکیل ص ۱۸۳ پر ہے کہ
’’ آں حضرت ﷺ جو مومن بہ ہیں ان کو مومنوں میں داخل کرنا ہذیان اور جنون ہے ‘‘۔
(تقدیس الوکیل ص ۱۸۳ )
جبکہ بریلویت کے مناظر مولوی غلام مہر علی چشتیاں اپنی بدنام زمانہ کتاب میں لکھتا ہے کہ
’’ ہمارے مومن ہونے اور حضور کریم کے مومن ہونے میں بہت بڑا فرق ہے ‘‘۔
(دیوبندی مذہب ص ۱۷۷ )
اب بتاؤ ہذیان اور جنون بکنے والا یا تو ’’غلام مہر علی چشتیاں‘‘ ہوا یا ’’ دیوبندی مذہب ‘‘ کو صحیح اور غلام مہر علی کو امام ماننے والوں کے نزدیک یہ غلام دستگیر قصوری کی جہالت ہے ۔
(۸) مولوی شفیع رضوی صاحب تقدیس الوکیل ص ۳۶ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ :
’’ مولوی اسماعیل صاحب ؒ دہلوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سید احمد رائے بریلوی کے مرید تھے ۱۲۴۶ ھ مطابق ۱۸۳۱ ء میں بمقام بالاکوٹ سکھوں سے لڑتے ہوئے لاہی ملک عدم ہوئے‘‘ ۔( تقدیس الوکیل ص ۳۶ )
جبکہ احمد رضا خان اور مفتی احمد یار خان کی تحقیق کے مطابق ان حضرات کو مسلمانوں نے ختم کیا ۔اب یا تو احمد رضا اور احمد یار نعیمی کے ماننے والوں کے نزدیک تقدیس الوکیل والا جاہل ہے یا یہ احمد رضا اور احمد یار نعیمی کا محض بہتان ہے فیصلہ بریلوی ہی کریں گے ۔
(۹) تقدیس الوکیل ص ۴۰۱ پر غلام دستگیر قصوری نے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کو ’’ رحمۃ اللہ علیہ لکھا ہے ۔جبکہ مقیاس حنفیت ص ۵۷۶۔۵۷۵ پر حضرت شاہ صاحب کو وہابی ثابت کیا ہے ۔رسائل نعیمیہ ص ۷۰ پر احمد یا گجراتی نے حضرت شاہ عبد الرحیم صاحب ؒ اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کو دیوبندی علماء میں شمار کیا ہے ۔انوار کنز الایمان ص ۵۳۶ ۔۵۳۰ تک میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کو گستاخ رسول اور گستاخ خدا ثابت کیا گیا ہے ۔
اب ان حضرات کے نزدیک غلام دستگیری قصوری مسلمان نہیں رہتا جو گستاخ رسول و گستاخ خدا اور وہابی دیوبندی کو رحمۃ اللہ علیہ کہہ رہا ہے ۔کیونکہ بریلویت کے فتاویٰ جات میں فتوی موجود ہے کہ گستاخ کو رحمۃ اللہ علیہ کہنا کفر ہے ۔(ہمارا اسلام ،کفریہ کلمات کے بارے میں سوال وجواب )
۱۰۔ تقدیس الوکیل ص ۱۸۳ پر غلام دستگیر قصوری لکھتا ہے کہ :
’’ لیکن کسی نے بھی خواص صحابہؓ سے باوجود یہ کہ وہ آپ کی نسب میں بھائی تھے ، آپ کو کبھی بھی بھائی کے لفظ سے نہیں پکارا تھا ‘‘۔
(تقدیس الوکیل ص ۱۸۳ )
آگے لکھتا ہے کہ:
’’ تو بھائی کا لفظ جو برابری کی دلیل ہے اس پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے اور تعظیم کے موقع میں تشبیہ کا روا ہونا خلاف تعظیم کے جواز کو ہر گز مقتضی نہیں ہے ‘‘۔
( ایضا ص ۱۸۴ )
جبکہ بریلوی استاذ العلماء مفتی ظہور احمد جلالی صاحب کا مضمون کلمہ حق شمارہ۳ کا عنوان ہی یہی تھا کہ :
’’ سید نا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے بعد رسول اللہ ﷺ کو اپنا بھائی کہنے والا کذاب ہے ‘‘۔( کلمہ حق شمارہ نمبر ۳ ص ۷ )
ایک جگہ لکھا ہے کہ
’’ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم ﷺ کو اپنا بھائی کہا ہے ‘‘۔
( کلمہ حق شمارہ نمبر ۳ ص ۸ )
اب مفتی ظہور احمد جلالی اور میثم رضا شیطانی کے نزدیک یہ تقدیس الوکیل کو جھوٹ ہے اور جہالت پر مبنی بات ہے ۔کہ کسی صحابی نے نبی علیہ السلام کو بھائی نہ کہا ہے۔تقدی الوکیل کے فتوی سے معاذ اللہ صحابہ کرامؓ بھی نہیں بچتے۔
۱۱۔ تقدیس الوکیل ص ۲۲۶۔ ۲۲۰ تک غلام دستگیر قصوری نء اس پر بحث کی ہے لیغفر لک اللہ ۔ الخ نبی علیہ السلام کی مغفرت کیلئے نازل ہوئی ہے جس سے نبی علیہ السلام کو خوشخبری دی گئی کہ آپ کو بخش دیا گیا ۔جبکہ ’’نجوم الشہابیہ ‘‘میں ۵۴ بریلوی علماء کا فتوی ہے کہ ’’مغفرت اور گناہ کے لفظ کو نبی علیہ السلام سے منسوب کرنے والا کافر و گستاخ رسول ہے‘‘ ۔تو ۵۴ علماء کے نزدیک غلام دستگیر قصوری کافر ہوا ۔
۱۲۔ تقدیس الوکیل ص ۹۲ پر ہے کہ
’’ وہ ہزار یا مثل آں حضرت ﷺ کے امکان کا قائل ہے ، پھر اس پر جب امکان کذب باری تعالیٰ لازم آیا ‘‘ ۔( تقدیس الوکیل ص ۹۲)
آگے لکھا ہے کہ :
’’ مولوی اسماعیل دہلوی نے امکان نظیر حضرت بشیر ونذیر ﷺ کے قول پر امکان کذب باری تعالیٰ کو تسلیم کرلیا ہے اور بے شک امکان نظیر امکان کذب کو لازم ہے ‘‘ ۔( ایضا ص ۹۸ )
’’ قائل امکان مثل آں حضرت ﷺ کی تکفیر کی ہے ‘‘
(ایضاْ ص ۹۰ )
جبکہ:
پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی ’’ امکان نظیر ‘‘ کے قائلین کے متعلق بھی کہتے ہیں کہ
’’شکر اللہ سعیھم ‘‘
اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو سرائے
(فتاوی مہریہ ، عجالہ بر دوسالہ ،مہر منیر، مناظرہ جھنگ )
بلکہ مناظرہ جھنگ میں الفاظ موجودہ ہیں کہ :
’’حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب قدس سرہ العزیز کا وہ ارشاد ( شکر اللہ سعیھم ) صرف ایک اختلافی مسئلہ یعنی امتناع نظیر اور امکان نظیر کے متعلق تھا ۔ شہید ملت مولانا فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللہ علیہ نبی علیہ الصلوٰ ۃ کی نظیر ممتنع و محال قراردیتے تھے ۔ اس مسئلے کو جب آپ کی خدمت میں پیش کیاگیا تو آپ نے کسی پر کوئی فتوی نہ لگایا ۔ بلکہ شکر اللہ سعیھم فرمایا یعنی اللہ تعالیٰ ان کی سعی اور جدوجہد کو قبول فرمائے ‘‘۔
( مناظرہ جھنگ ص ۲۶۹)
اب سارے کے سارے تقدیس الوکیل کے فتوے یا تو پیر مہر علی شاہ پر لگے اور وہ کافر قرار پائے یا پیر مہر علی شاہ کے مریدین اور ماننے والوں کے نزدیک یہ غلام دستگیر قصوری کی جہالت ہے ۔
فیصلہ بریلوی ہی کریں گے؟
۱۳۔ تقدیس الوکیل کے اندر ذرا ان درج ذیل عبارات پر غور کریں غلام دستگیر قصوری لکھتا ہے کہ:
’’ البتہ آپ کی مثل صرف خاتم ہونے میں بایں وجہ کہ حق تعالیٰ کی کوئی اور جہاں پیدا کرکے اس میں نبی بھیجے ، ایک ان کا پہلے حضرت آدم ؑ کی مثل ہو اور اخیر ان کا حضرت ﷺ کی مثل ہو ۔تو اس مثل کے امکان میں کوئی نزاع نہیں یہ کسی اور سلسلہ میں ہے نہ اس موجود جہاں دنیا میں ، پھر اس فرضی جہاں میں جو خاتم النبین ہوگا اس کی مثل بھی اسی سلسلہ میں غیر ممکن ہوگی‘‘۔
( تقدیس الوکیل ص ۱۲۴)
’’پس اگر کوئی اور جہاں ہو اور اس میں سوائے اس دنیا کے انبیاء مبعوث ہوں اور ایک ان کا خاتم ہو جو آں حضرت ﷺ کی مثل نبی اور خاتم میں ہو تو اس کے ممتنع ہونے پر ہم حکم نہیں کرتے جیسا کہ ابتدا میں لکھ آئے ہیں ‘‘۔
(تقدیس الوکیل ص ۱۳۴)
’’پس اس عبارت تفسیر کبیر کے معنی جب بیان اس تفسیر کبیر والے کے یہ ہوئے کہ ہزار جہاں کا ایک لمحہ میں پیدا کرنا خدا تعالیٰ کی مشیت میں نہیں ہے تو وہ جہاں قدرت کے نیچے داخل نہ ہوئے۔اور اگر مان لیں کہ وہ ہزار جہاں قدرت کے نیچے داخل ہیں تو وہ جہان اس دنیا کے سوا کوئی اور ہیں تو ایسے کا فرض کرلینا ہم کو مضر نہیں ‘‘ ۔( تقدیس الوکیل ص ۱۴۳)
’’ہم ہر گز یہ نہیں کہتے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مثل یا آں حضرت ﷺ کی مثل پر قادر نہیں ‘‘
( تقدیس الوکیل ص ۱۴۶ )
(جاری ہے)
پیر مہر علی شاہ صاحب نے اہل السنۃ والجماعۃ دیوبند کوکبھی کافر نہیں کہا
بریلوی چراغ گولڑہ پیر نصیر الدین نصیر لکھتا ہے کہ :’’ہمارے حضرت پیر سید مہر علی شاہ قدس سرہ کسی کلمہ گو کو کافر یا مشرک کہنے کے حق میں نہیں تھے اور نہ کبھی آ پ نے کسی دیوبندی کوکافر یا مشرک قرار دیا‘‘۔
(راہ و رسم منزل ہا:ص۲۶۶:مہریہ نصیریہ پبلشرز درگاہ غوثیہ مہریہ گولڑہ شریف)
مناظرہ کوہاٹ ،تذکرہ مظہر مسعود ،فتاوی مظہریہ اور دیگر اہم بریلوی حوالہ جاتی کتب حاصل کرنے کیلئے رابطہ کریں 0331-2229296
ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگیقارئین اہلسنت ! رضا خانی رسالہ کلمہ حق ۔ شمارہ نمبر ۸ میں ’’ وسیم عباس رضوی ‘‘ کا ایک مضمون پڑھنے کا موقع ملا۔پڑھ کر حیرت بھی ہوئی اور وسیم رضوی کی جہالت پر افسوس بھی بہت ہوا ۔ وسیم عباس رضوی صاحب جان کے انجان بن کر
مولوی وسیم رضوی کی جہالتیں اور خباثتیں
(قسط اول)
محمد سفیان معاویہؔ
(i) علمائے اہلسنت کے موقف کو صحیح پیش نہیں کرتے جو کہ خیانت ہے تو خائن کہلائے یا جہالت کی وجہ سے علمائے اہلسنت کے مسلک کو صحیح سمجھ نہ پائے تو جاہل بنے۔
(ii) علمائے اہلسنت کیلئے بغض و عداوت موجود ہے تب ہی انصاف کا ترازو استعمال نہیں کرتے تو متعصب کہلائے۔
(iii) حق کو چھپانے والے اور باطل کو پھیلانے والے ہیں تواحمد رضا کی نسل سے ہوئے ۔
وسیم رضا خانی کی جہالت نمبر ۱:
وسیم رضا خانی نے کلمہ حق شمارہ نمبر ۸ ص ۵۶۔۵۵ تک محض اپنی لفاظی کے ذریعے امام المناظرین وکیل اہلسنت حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف اپنے دل کا بغض نکالا اور ان کی شخصیت پر کیچڑ اچھالا ہے۔جبکہ تمہارا حسن علی رضوی میلسی لکھتا ہے کہ :
’’اہل بریلی کا بلا اختلاف و مسلک عام تاثر یہ تھا ہم سنتے تھے کہ بریلی میں مولوی منظور کے سامنے کوئی شخص بولنے والا نہیں ‘‘۔
(فیصلہ کن مناظرے ص ۸۹۵)
ؑ ؑ غلام رسول سعیدی صاحب لکھتے ہیں کہ:
’’جس زمانے میں مولانا منظور نعمانی کے مناظروں کی ان کے حلقوں میں بڑ ی شہرت تھی‘‘۔( مقالات سعیدی ص ۶۰۸)
مولوی حاجی محمد مرید احمد چشتی نقل کرتے ہیں کہ :
’’ان (قمر الدین سیالوی ) کے پاس مولانا ظہور احمد صاحب بگوی رحمۃ اللہ علیہ امیر حزب الانصار بھیرہ بیٹھے ہوئے تھے تو جب مولانا حشمت علی علمیت سے گری ہوئی کوئی کمزور بات کرتے تو حضور سیالوی مولانا ظہور احمد صاحب کو اپنی علاقائی پنجابی میں فرماتے ’’ دیکھ کیا چبل لریندا پیا اے ‘‘ یعنی دیکھو تو کیسی غلط بات کررہے ہیں ۔ دوسری طرف مولوی منظور بڑی متانت سے پختہ بات کرتے ۔ مناظرہ ختم ہونے پر ہم توواں بچھراں آگئے ۔ مولانا کرم دین دبیر صاحب اپنے گاؤں بھیس چلے گئے لیکن ان کے دل پر مولانا حشمت علی صاحب کے اس جملہ ’’ تو منظور میں ناظر میں ناظر تو منظور ‘‘ کی بار بار تکرار بہت ناگوار گزری اور منظور صاحب کے متانت بیانی اپنا اثر کرگئی۔ گھر پہنچ کر اپنے لڑکے قاضی صاحب قاضی مظہر حسین کو تفصیل مناظرہ سنائی پھر اسی سال قاضی مظہر حسین کو خود دیوبند حضرت مدنی کے نام خط دے کر روانہ کر دیا ۔کسی نے سچ کہا ہے کہ:
انقلابات ہیں زمانے کے
کل کے دشمن بنے ہیں آج سجن
(فوزالمقال ج اول ص ۵۳۷)
اس کتاب پر ابو الحسن شاہ محمد منظور ہمدانی۔ بانی و ناظم اعلیٰ انجمن قمر الاسلام سلیمانیہ کراچی، غلام علی سیالوی ۔ فاضل دارالعلوم قمر الاسلام سلیمانیہ کے نام تصدیق کیلئے موجود ہیں ۔
یہ ہے وکیل اہلسنت! اپنے تو اپنے غیر بھی حضرت نعمانی رحمۃ اللہ علیہ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور دیوبند پڑھنے کیلئے اپنے ہونہار بیٹے کو بھیج دیا ۔
لو چند صفات اس کی اپنے گھر سے ہی سن لو جس کی نظر کے فیضان پہ رسالہ نکال رہے ہو :
(۱) مفر اس پیکر تکبر کے روبر(الطاری الداری حصہ سوم ص ۱۰۴ )
(۲) وہ اب کس طرح آپ کی دیانت کے قائل نہیں ۔۔۔۔۔(الطاری الداری)
(۳)حکومت شیطانیہ کی خدمت آپ انجام دینے کے مستحق اعزاز ہو(الطاری الداری حصہ سو م ص ۱۰۵ )
(۴)’’ جناب نے فتاووں تحریروں کے ذریعہ سے جو کچھ گلفشانی کی ہے اور جس تجدید دین کا دارمدار سمجھا ہے وہ اسلاف سے بعید ہے ‘‘(الطاری الداری حصہ سوم ص ۱۰۵ )
(۵) آپ خدا سے نہیں ڈرتے (الطاری الداری حصہ سوم س ۱۰۶ )
(۶) یہ آپ ہی کا گستاخانہ انداز ہے ( ایضاً ص ۱۰۷ )
(۷) دروغ گو را حافظہ نبا شد ( ایضاً ص ۱۰۷)
(۸) آپ کی چھچھوندر نظر وں ( ایضاً ص ۱۰۷ )
(۹)صفت ۱ : بند خلاصی ( احمد رضا خان کی )(تجلیات انوار المعین ص ۷ )
(۱۰) خصوصیت ۲ : الزام بمالم یلتزم( ایضاً ص ۸ )
(۱۱)خصوصیت ۳: مغالطہ دہی ( ایضا ص ۹ )
(۱۲) خصوصیت ۴ : بہتان ترازی ( ایضاً ص ۱۱ )
(۱۳) خصوصیت ۵: مجادلہ ( ایضاً ص ۱۲ )
(۱۴)خصوصیت ۶ : حق پوشی ( ایضاً ص ۱۴ )
(۱۵)خصوصیت ۷: کج بحثی (ایضاً ص ۱۶)
(۱۶) خصوصیت ۸: خلاف بیانی ( ایضا ص ۱۷)
(۱۷) خصوصیت۹: افترا و تحریف ( ایضاً ص ۱۷ )
(۱۸) مگر ہم کہتے ہیں کہ ان کو ( احمد رضا کو ) قطع و برید و تحریف کا ایسا ’’ چسکا ‘‘ پڑگیا ہے کہ کوئی عبارت کسی کی پوری پوری نقل نہیں فرماتے خاص کر وہ جس کو ایک ایک لفظ مربوط اور معنی خیز ہو ‘‘ (انکشاف حق ص ۱۴۹ )
(۱۹) ’’ اعلیٰ حضرت کی چلبلی طبیعت‘‘ ( فتاوی مظہری ص ۳۹۲ )
مندرجہ بالا حوالاجات مستند بریلوی علماء کی تحریرات سے بیان کیے گئے ہیں جنہوں نے مولوی احمد رضا خان کی شخصیت کو بہت خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے ۔
مزید تفصیل کیلئے نور سنت میں ’’ سوانح بانی بریلویت ۔ حقائق و معلومات کے آئنے میں‘‘ نامی مضمون پڑھ لیں ۔ ہوش ٹھکانے آجائیں گے کہ کس کذاب و خائن و جاہل آدمی کی نظر کا فیضان پر رسالہ نکال رہے جو اپنی مثال آپ ہے ۔
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
وسیم رضوی کی جہالت نمبر ۲ :
سیف یمانی کے متعلق رضا خانی لکھتا ہے :
’’ اور جو کچھ منظور سنبھلی نے کیا ہے یہ سب ہذیان کے سوا کچھ نہیں ‘‘
(کلمہ حق شمارہ نمبر ۸ ص ۵۶ )
رضا خانی صاحب اب ہم جو حوالہ دینے لگے ہیں اس کو پڑھ کر توآپ کے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے ۔ آپ کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل جائے گی۔
بریلوی علامہ آل مصطفی مصباحی بریلوی مولوی احمد رضا خان کی بدنام زمانہ ، رسوائے زمانہ کتاب کے متعلق حقیقت کا اظہار کرتے ہیں کہ :
’’سبحن السبوح (احمد رضا کی کتاب ) کی صرف ابتدائی چند ورقوں پر ہذیان‘‘ (سوانح صدر الشریعہ ص ۸۶ )
ہذیان بکنے والا تو احمد رضا خان ہوا ۔اعتراض دوسروں پر یاد رہے کہ یہ گواہی بھی آپ کے گھر کی ہے ۔اور آپ کا سیف یمانی کے بارے میں کہنا آپ کی غلط بیانی ہے ہمیشہ حق کے خلاف یہی کہا جاتا ہے ۔ یہ کتاب دلائل و براہین سے بھر پور ہے جیسا کہ ہم آگے جا کر اس پر بات کریں گے ۔
وسیم رضاخانی کی جہالت نمبر ۳ :
وسیم رضا خانی صاحب مزید جہالت کا ثبوت پیش کرتے ہیں کہ :
’’اگر آپ کے نزدیک یہ امر نصوص کثیرہ سے ثابت تھا تو خلیل احمد کو دکھاتے کہ وہ تو کہتا ہے کہ فخر عالم کی وسعت علم کونسی نص قطعی سے ثابت ہے تو یہ منظور سنبھلی کی جہالت ہے کہ تو جیہ القول بما لا یر ضی بہ قائلہ کرتا ہے‘‘ ۔
الجواب :
(i) اجہل وسیم رضا خانی کی جہالت ہے کہ اس کو ’’ علوم کمالیہ ‘‘ اور ’’ علم محیط زمین ‘‘ کا فرق معلوم نہیں ہے ۔
(ii) ’’ توجیہ القول بما لا یر ضی بہ قائلہ ‘‘ تو آپ پر فٹ آتا ہے جو دلیل سے ثابت ہے ۔
وسیم رضا خانی کی جہالت نمبر ۴ :
وسیم رضا خانی اجہل لکھتا ہے کہ :
’’ یہ بھی ان کی جہالت ہے کہ انوار ساطعہ میںیا کسی بھی اہلسنت کے عالم نے سرکار علیہ الصّلوۃ والسلام کیلئے علم ذاتی نہیں مانا ۔‘‘
الجواب:
سبحان اللہ ! یہ بھی وسیم رضا خانی ملاّ کی جہالت ہے کہ علمائے اہلسنت دیوبند کے موقف کو بیان کیے بغیر اعتراض کرتا ہے ۔ جو علم محیط زمین اللہ جل جلالہ نے اپنے پیارے انبیاء علیہم السلام کو نہیں دیا اور کوئی اس علم کو انبیاء علیہم السلام کیلئے مانے وہ کیا ذاتی نہیں مانا گیا ؟؟چاہے آپ اس کا نام عطائی ہی رکھے مگر حقیقتاً وہ ذاتی ہی ہوگا۔
ازالۃ الریب ، اظہار العیب ، بوارق العیب ، جواہر القرآن اور براہین قاطعہ میں اس کو تفصیلاً دیکھا جاسکتا ہے ۔استاد محترم مولانا ابو ایوب صاحب قادری کی علم غیب پر تحریرات سے استفادہ حاصل کرسکتے ہیں ۔
وسیم رضا خانی جہالت ۵ :
وسیم رضا خانی لکھتا ہے کہ :
’’ رشید احمد گنگوہی سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام کیلئے علم غیب ذاتی ثابت کرنے کوبھی جائز سمجھتے ہیں ‘‘۔
(کلمہ حق شمارہ نمبر ۸ ص ۵۹ )
الجواب :
وسیم رضا خانی کی بہت بڑی جہالت بھی ہے اور جھوٹ بھی ہے جس کا آپ خود حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریرات سے اندازہ لگاسکتے ہیں ۔
فقیہ العصر ، امام ربانی ، قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد محدث گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ:
’’ اور جو یہ کہتے ہیں کہ علم غیب بجمیع اشیاء آنحضرت ﷺ کو ذاتی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا عطا کیا ہوا ہے سو محض باطل اور خرافات میں سے ہے ‘‘۔
(تالیفات رشیدیہ ص ۹۳ ماخوذ فتاوی رشیدیہ )
’’ اور جو یہ عقیدہ ہے کہ خود بخود آپ کو علم تھا بدوں اطلاع حق تعالیٰ کے تو اندیشہ کفر کا ہے ‘‘۔
(تالیفات رشیدیہ مع فتاوی رشیدیہ ص ۱۰۲ )
لو پہلی تحریر میں محدث گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے علم غیب ذاتی ماننے کو باطل اور خرافات کا نام دیا ہے تو میں وسیم رضا خانی اور میثم جاہل سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ باطل اور خرافات والے کام کیا آپ رضا خانیوں میں جائز کا مقام رکھتے ہیں ؟؟ اور دوسری تحریر میں ’’ اندیشہ کفر ہے ‘‘ کے الفاظ بھی جائز کا درجہ رکھتے ہیں ؟؟ اگر یہ عبارت بھی دیکھیں کہ :
’’ پس اگر عقیدہ زیدکا اس سبب سے ہے کہ آپ کو حق تعالیٰ نے علم دیا تھا تو ایسا سمجھنا خطا صریح ہے ‘‘۔
(تالیفات رشیدیہ مع فتاوی رشیدیہ ص ۱۰۲ )
کیا خطا صریح کام بھی آپ رضا خانیوں میں جائز کا حکم رکھتے ہیں ؟؟اجہل وسیم رضا خانی صاحب کسی نے سچ کہا ہے پہلے سوچو پھر بولو ۔
وسیم رضا خانی کی جہالت نمبر ۶ :
یہ بھی وسیم رضا خانی کی جہالت ہے کہ فتاوی رشیدیہ کی جو عبارت پیش کی ہے اس کے سیاق و سباق کو بیان کیے بغیر مطلب اخذ کرنے کو شش کی ہے۔
فتاوی رشیدیہ میں سائل نے حضرت یوسف علیہ السلام کا کنویں میں گرنا اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے علم ہونے سے متعلق پوچھاہے۔ اور واقعہ افک میں نبی علیہ السلام کے معلوم ہونے کے متعلق بحث ہے۔ ان دو واقعات پر حضرت محدث گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا فتوی ہے۔شاید بصارت کے ساتھ ساتھ آپ کی بصیرت بھی ختم ہوگئی ہے جو آپ مسئلہ کو سمجھ نہ سکے ۔
وسیم رضا خانی کی جہالت نمبر۷:
وسیم رضا خانی اجہل لکھتا ہے کہ
’’ اس جاہل نے تسلیم کیا کہ وسعت علمی کا انکار کیا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ خلیل احمد کو بے وقوف بھی کہا ہے کہ انہوں نے ایسے امر کارد کیا جس کا سامنے والا قائل ہی نہیں ‘‘۔(کلمہ حق شمارہ ۸ ص ۶۰ )
الجواب:
اجہل رضا خانی صاحب ! شاید عقل نام کی کوئی چیز تم میں موجود نہیں ہے ۔
(i) حضرت امام المناظرین مولانا منظور نعمانی صاحب جس وسعت علمی کا بتا رہے وہ بغیر عطائے خداوندی ہے جس کو فریق مخالف بھی مانتے ہیں ۔
ذاتی طور جو علم مانا جائے گا وہ کفر ہے ۔ تو جو اعتراض ہم پر ہوگا وہ تم پر بھی ہوگا۔
(ii) حضرت نعمانی صاحب نے بے وقوف تو ساری نسل رضا خانیت کو ثابت کیا جو فتوحات نعمانیہ ، سیف یمانی ، بوارق الغیب اور ان کی تقاریر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
(iii) یہ بھی جہالت ہے کہ ’’ انہوں نے ایسے امر کا رد کیا جس کا سامنے والا قائل ہی نہیں ‘‘ کیونکہ تم وہ علم محیط جمیع ماکان و جمیع مایکون ماننے کا دعوی کرتے ہو جو بغیر عطائے خداوندی ہے یعنی ذاتی ہے ۔
تو دلائل و براہین سے تم قائل ہو اور حقائق سے یہ ذاتی ہے تو جہالت تو آپ کی ہے کہ آپ کی عقل بالکل کام ہی نہیں کرتی ۔
وسیم رضا خانی کی جہالت نمبر ۸ :
فتاوی خلیلہ کا حوالہ پیش کرنا بھی وسیم رضا خانی جاہل کی جہالت ہے کیونکہ یہ اجہل علمائے حقہ علمائے اہل سنت دیوبند کے موقف کو سمجھے بغیر ہی حوالے دیتا ہے اور اپنی جہالت کا اقرار کرتا ہے ۔ جب ہمارے اکابر اس کو واضح کرچکے کہ وہ علم محیط جو اللہ پاک نے نہیں دیا اس کو آپ مانتے ہیں چاہے اس کا نام عطائی بھی رکھے وہ ذاتی ہی ہوگا تو یہی چیز فتاوی خلیلہ ، فتاوی رشیدیہ ، براہین قاطعہ اور سیف یمانی میں بیان کی گئی ہے۔ جو آپ جیسے اجہل کو سمجھ نہیں آسکی ۔
وسیم رضا خانی کی جہالت نمبر ۹:
اجہل وسیم رضا خانی لکھتا ہے کہ :
’’ یہ بھی منظور سنبھلی کی جہالت ہے کہ عقیدہ انکا اور اس پر نصوص رامپوری صاحب بیان کریں ‘‘ ( کلمہ حق شمارہ ۸ ص ۶۱ )
ؒ الجواب :
(i) کسی نے سچ کہا ہے رضا خانی اور عقل دو متضاد اشیاء ہیں جہاں عقل ہوگی وہاں رضا خانی نہیں ہونگے جہاں رضا خانی ہونگے وہاں عقل نہیں ہونگی ۔ تو اس رضا خانی کی یہ جہالت ہے جو ھمارے بارے میں یہ کہتا ہے کہ ’’ شیطان ا و ر ملک الموت کی وسعت علمی ہمارا عقیدہ ہے ‘‘ یہ رضا خانی جاہل شیطان اپنے گھر کی کتب اور اپنے اکابر کی کتب سے بالکل جاہل نظر آتا ہے ۔
حوالہ جات سے جہالت ملاحظہ ہو:
مفتی احمد یار خان نعیمی گجراتی بریلوی لکھتے ہیں کہ :
’’ شیطان ہر دین کے مسئلہ سے واقف ہے ‘‘ ۔
( رسائل نعیمیہ ص ۳۸۳ مطبوعہ ضیاء القرآن لاہور )
الیاس قادری صاحب لکھتے ہیں کہ :
’’ ابلیس کا علم حضور اقدس کے علم سے وسیع ہے مگر وسیع تر نہیں‘‘۔
( ملخصاکفریہ کلمات کے بارے میں سوال و جواب ص ۲۴۵ )
یہی بات مولوی احمد رضا کے رسالے ’’ خالص الاعتقاد ‘‘ اور نعیم اللہ خان قادری کی مرتب کردہ کتاب ’’ فیصلہ کن مناظرے ‘‘ میں موجود ہے اور آئینہ اہلسنت میں بھی ہے ۔
عبد السمیع رامپوری صاحب لکھتے ہیں کہ :
’’ شیطان ہر جگہ موجود ہے ‘‘ ۔( انوار ساطعہ ص ۳۵۷ )
عبد السمیع رامپوری آگے لکھتے ہیں کہ :
’’ اب فکر کرنا چاہئے جب چاند سورج ہر جگہ موجود اور ہر جگہ زمین پر شیطان موجود ہے ‘‘۔
( انوار ساطعہ ص ۳۵۹)
آگے لکھتے ہیں کہ :
’’اور تماشا یہ کہ اصحاب محفل میلاد تو زمین کی تمام جگہ پاک وناپاک مجالس مذہبی وغیر میں حاضر ہونا رسول اللہ ﷺ کا نہیں دعوی کرتے ملک الموت اور ابلیس کا حاضر ہونا اس میں بھی زیادہ تر مقامات پاک و ناپاک کفر میں پایا جاتا ہے ۔‘‘( انوار ساطعہ ص ۳۵۹ )
مفتی احمد یار نعیمی لکھتے ہیں کہ :
’’ اس سے معلوم ہوا کہ شیطان کو بھی آئندہ غیب کو باتوں کا علم دیا گیا ہے‘‘۔
(نورالعرفان ص۲۴ مطبوعہ پیر بھائی کمپنی )
غلام رسول سعیدی کی تحریر کو ذرا غور سے پڑھیئے :
’’ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو جو علم دیا ہے اس کا ذکر یوں فرماتا ہے انہ یرکم ہو وقبیلہ من حیث لا ترہ نھم ( الاعراف : ۲۷ ) شیطان اور اس کی ذریات روئے زمیں کے تمام بنی ادم کو دیکھتی ہیں ‘‘۔ ( مقالات سعیدی ص ۵۶ )
آگے لکھتے ہیں کہ :
’’ پس فروری ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ نے شیطان کو تمام روئے زمین کے نبی آدم کا علم عطا فرمایا ہے ‘‘۔
( مقالات سعیدی ص ۵۶ )
’’ اگر شیطان روئے زمین کے بنی آدم کو دیکھتا ہے ‘‘۔
(مقالات سعیدی ص ۵۷ )
احمد یار نعیمی لکھتے ہیں کہ :
’’جب رب نے گمراہ کو اتنا علم دیا ہے کہ وہ ( شیطان ) ہر جگہ حاضر ناظر ہے ‘‘۔
(نور العرفان ص ۲۴۳ )
اور لکھتے ہیں کہ:
’’ شیطان اور اس کی ذریت سارے جہاں کے لوگوں کو دیکھتے ہیں اور لوگ انہیں نہیں دیکھتے ‘‘۔
( نور العرفان ص ۲۴۳)
ایک جگہ لکھتے ہیں کہ :
’’ ابلیس آن کی آن میں تمام زمین کا چکر لگا لیتا ہے ‘‘۔
(جاء الحق ص ۶۶)
آگے لکھتے ہیں کہ :
رب تعالیٰ نے شیطان کو گمراہ کرنے کیلئے اتنا وسیع علم دیا کہ دنیا کا کوئی شخص اس کی نگاہ سے غائب نہیں ‘‘۔(جاء الحق ص ۸۲ )
ابو کلیم صدیق فانی رضا خانی صاحب لکھتے ہیں کہ :
’’مولانا عبد السمیع رامپوری فرماتے ہیں کہ عقیدہ اہل سنت وجماعت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت اسی طرح اور حقیقت سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے دوسرے میں نہیں ہوتی اور خصوصیت کے معنی یہ ہے کہ یوجد فیہ ولا یوجد فی غیرہ اور روئے زمین پر کل جگہ موجود ہوجانا کچھ خاصہ مخصوص خدا کے ساتھ نہیں ۔
رامپوری صاحب کی حمایت کرتے ہوئے شیطان کو ہر جگہ حاضر ناظر مانتے ہوئے اسے بریلویت کا عقیدہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’ صا حب درمختار لکھتے ہیں کہ شیطان اولاد آدم کے ساتھ دن کو رہتا ہے اور ان کا بیٹا آدمیوں کے ساتھ رہتا ہے ۔ علامہ شامی نے اس کی شرح میں لکھا ہے کہ شیطان تمام بنی آدم کے ساتھ رہتا ہے مگر جس کو اللہ نے بچا لیا ، بعد اس کے لکھا ہے اللہ نے شیطان کو اس بات کی قدرت دی ہے جس طرح ملک الموت کو سب جگہ موجود ہونے پر قادر کردیا ہے۔
ان احادیث نبویہ اور بزرگان دین کے ارشاد کی روشنی میں اگر مولانا عبد السمیع رامپوری نے درج ذیل عبارت لکھ دی ہے تو کون سا جرم کیا ہے جس کی وجہ سے تم نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے ‘‘۔
( آئینہ اہل سنت ص ۴۱۲ )
آگے لکھتے ہیں کہ :
’’ اور قبلہ مفتی احمد یار خان نعیمی کی درج ذیل عبارت کا بھی یہی جواب ہے کہ رب کریم نے شیطان کو اتنا علم دیا ہے کہ وہ ہر جگہ بحیثیت علم موجود ہے ‘‘۔
( آئینہ اہل سنت ص ۴۱۲ )
میرے خیال میں وسیم رضا خانی جاہل کی عقل ٹھکانے آگئی ہوگی ۔ اگر اب بھی نہ آئی تو ہم ہوش ٹھکانے لگانے کیلئے حاضر ہیں۔ معلوم ہوا کہ شیطان کی وسعت علمی کا عقیدہ بریلویہ کا ہے جیسا کہ ابو کلیم صدیق فانی کے واضح الفاظ موجود ہے ملاحظہ کریں: ( آئنہ اہلسنت ص ۴۱۱۔۴۱۲ )
تو جیسا جھوٹ وسیم رضا خانی نے بولا ہے ایسا ہی جھوٹ مفتی اجمل سنبھلی نے بھی ’’ رد سیف یمانی ‘‘ میں بولا ہے ،لیکن شاید وسیم رضا خانی کا یہ سارا مضمون ہی رد سیف یمانی سے چوری کیا ہوا ہے دونوں کا موازنہ کیا جاسکتا ہے ۔ اجمل سنبھلی اور وسیم رضا خانی کی جہالت کو مندرجہ بالا حوالاجات سے دیکھا جاسکتا ہے ۔
آخر میں اتمام حجت کیلئے میں حوالے نقل کرکے اس بات کو ختم کرتا ہوں اور مزید وسیم رضاخانی کی جہالتوں کو بیان کرتا ہوں ۔
اشرف سیالوی ۔ بریلوی مناظر لکھتے ہیں کہ
’’ جو شخص آنحضور ﷺ پر نور کے علم کو عزرائیل اور شیطان کے علم کے برابر بھی نہ جانے وہ جاہل و غبی یا گمراہ و غوی ہے ‘‘۔( کوثر الخیرات ص ۹۴ )
’’ شیطان اور ملک الموت کی اس وسعت علم سے اہل سنت نے استدلال پکڑا ‘‘ ( کوثر الخیرات ص ۹۴)
سیالوی صاحب لکھتے ہیں کہ :
’’ کتاب اللہ اور احادیث رسول اکرم ﷺ سے صرف شیطان و ملک الموت کی وسعت علم پر قطعی دلائل ملے ہیں ۔ ‘‘(کوثر الخیرات ص ۹۶ )
اجمل سنبھلی نے جن جہالتوں کا ارتکاب اپنی کتاب ’’ رد سیف یمانی ‘‘ میں کیا ہے ان شاء اللہ ہم اس کا وہ آپریشن کرنے والے ہیں کہ ذریت بریلویت ایک بار کانپ اٹھے گی ۔ وسیم رضا خانی نے اجمل رضا خانی کی تقلید کرتے ہوئے ان ہی جہالتوں کا سہارا لے کر حضرت امام المناظرین ، فاتح رضا خانیت مولانا منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کرنے کی ناتمام و نامراد کوشش کی ہے ۔ جس کو ہم حقیقت کے آئینے میں رکھ بریلویت کو ننگا کررہے ہیں۔
وسیم رضا خانی کی جہالت نمبر ۱۰ :
’’ نمبر ۵ ‘‘ میں وسیم رضا خانی نے اپنی جہالت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ ’’ حضرت منظور نعمانی ؒ نے فتاوی شامی کی عبارت کو نص قطعی کہا ہے ‘‘ (کلمہ حق ص ۶۲ شمارہ نمبر ۸ )
(جاری ہے)
نام نہاد رضائے مصطفی والوں کی منافقتمولوی ابو داود رضاخانی کے رسالے ’’رضائے مصطفی‘‘کے اپریل ۲۰۱۲کے صفحہ ۳۲ پر یہ سرخی تھی
’’وزیر اعظم گیلانی کا ۱۱ربیع الاول کو تعطیل کا اعلان‘‘
جس میں رضاخانیوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ گیلانی بریلوی ہے اور پورے ملک میں میلاد کی خوشی میں چھٹی کرادی، مگر دوسری طرف ان کی منافقت دیکھیں کہ یہی گیلانی اور چیف آف ارمی سٹا ف جنرل اشفاق پرویز کیانی سعودی ولی عہد شہزادہ نائف بن عبد العزیز مرحوم کے انتقال پر ان کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے (روزنامہ محشر و جنگ کراچی :۱۸ جون ۲۰۱۲)
ہمارا ابو داودرضاخانی سے سوال ہے کہ جب سعودی تیرے مذہب میں وہابی نجدی کافر ہیں تو اس کے جنازے میں شریک ہونے پر وزیر اعظم اور سپہ سالار کافر ہوئے یا نہیں ؟اگر ہاں اور یقیناًہاں تو تونے چپ کیوں سادھی؟ پاؤں تیرے قبر میں لٹک رہے ہیں تجھے غیرت نہ آئی کہ اپنے رسالے میں ایک مضمون ان کے خلاف لکھتا اور ان سے تجدید ایمان کا مطالبہ کرتا ؟
www.RazaKhaniMazhab.com
www.HaqForum.com
No comments:
Post a Comment